بلوچستان کی شورش کا ذمے دار کون؟

سن 2024 میں ملک میں دہشتگردی نے ایک بار پھر سر اُٹھا یا ، تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں دہشت گرد حملوں کی تعداد اور شدت میں پریشان کن اضافہ ہوا ہے، مذکورہ رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ملک میں سیکیورٹی صورتحال 2014 سے پہلے کی طرح ہوسکتی ہے۔
تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی مقامی کالعدم تنظیموں کے حملوں میں 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس میں بلوچستان میں 171 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، رواں سال 5 جنوری کو بلوچستان کے علاقے تربت کے مقام پر سیکیورٹی فورس پر حملے کے سبب ایف سی جوانوں سمیت 11 افراد شہید ہوچکے ہیں ، سال کے ابتدا میں ہی ایسی صورتحال یقینا باعث تشویش ہے۔
بلوچستان کا نوجوان طبقہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جس کا فائدہ کالعدم جماعتیں اور غیر ملکی دہشتگرد اُٹھا رہے ہیں، صوبے کا المیہ یہ بھی ہے کہ سردار اور نواب سمیت چند لوگ کروڑ اور ارب پتی ہیں اور اکثر عوام غریب، بے روزگار اور غیر تعلیم یافتہ ہیں، ، بدقسمتی سے سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں میں ۔ لڑکیوں کی تعلیم کی شرح 35فیصد سے بھی کم ہے اور لڑکوں کی تعلیم 40 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، یہ صورتحال کالعدم جماعتوں کے لئے آئیڈیل ہے، جب ہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
اس صوبے پر نواب اور سردارلمبے عرصے سے حکمران رہے ہیں اور وہ اکثردعوے یہ کرتے ہیں کہ صوبے کے ساتھ وفاق اور ریاست کی طرف سےزیادتیاں ہورہی ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کے ذمہ دار وہ خود ہیں، جو نہ بلوچستان میں ترقی لاسکے اور نہ ہی اس صوبے کو دہشتگردی سے پاک کراسکے۔
بلوچستان میں پہلی شورش 1948 میں ہوئی، جب ریاست قلات کے پاکستان سے اللحاق کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک کئی بار علیحدگی پسند تحریکیں ابھری ہیں، جنہوں نے صوبے میں افراتفری پھیلائی ہے۔ بی ایل اے اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان کے عوام کو اپنی سوچ کے مطابق مسلح جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور انہیں ریاست کے خلاف لڑنے پر پر مجبور کرتی ہیں۔بلوچستان میں بھارت اور دیگر بیرونی طاقتوں کی مداخلت ایک حقیقت ہے۔ بھارت ہمیشہ سے بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو مالی اور اسلحے کی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بلوچستان میں دہشتگردی کا ایک اور بڑا سبب افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال ہے۔ افغان سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقے دہشتگرد گروہوں کے نشانے پر ہیں اور افغانستان میں موجود دہشتگرد عناصر کو بیرونی حمایت بھی حاصل ہے۔ افغانستان کے عدم استحکام کی وجہ سے بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے فوج اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے، لیکن یہ مسئلہ صرف عسکری کارروائیوں سے حل نہیں ہو سکتا، بھارت کی مداخلت کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا اس حقیقت سے واقف ہو کہ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے، کلبھوشن یادیو کا کیس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت بلوچستان میں اپنی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہے۔
علیحدگی پسند تنظیم خواتین کے ذریعے سے دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہیں، لڑائیوں میں مستورات کا استعمال کرنا کسی بھی غیرت مند کا کام نہیں ہوسکتا ہے ، اپنے آپ کو بلوچ کہلانے والی یہ کالعدم تنظیمیں صنف نازک سے خود کش دھماکے کروا رہی ہیں، جو نئی نسل کو پروان چڑھانے کی امین ہوتی ہیں، جنگ کا اصول ہوتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو لڑائی سے دور رکھا جائے جبکہ بلوچستان کی مقامی کالعدم تنظیمیں خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انہیں خود کش بمبار بنا رہہی ہیں، جو ہر صورت قابل مذمت امر ہے، صاحب غیرت کو خواتین کا استعمال کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔
بلوچستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 77برسوں میں کتنی ہی حکومتوں نے بلوچستان کیلئے بڑے بڑے پیکیجز کا اعلان کیا مگر خاطر خواہ ترقی تاحال نظروں سے اوجھل ہے ۔
بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور اس سرزمین میں گیس‘ کوئلہ‘ سونا‘ چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر پوشیدہ ہیں مگر بے امنی اور انتشار کی فضا میں ان وسائل سے استفادہ کیونکر ہو ہو گا؟ بلوچستان کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو سرفہرست مسئلہ سکیورٹی ہے، یہ بات سو فیصد درست ہے کہ یہاں کی زمینی صورتحال پر نظر رکھنا آسان نہیں ہے لیکن بوچستان سے ایران و افغانستان میں موجود ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے ان ممالک پر زور دینے اور ملک کے اندر سکیورٹی نظام کو مزید بہتر بنانے سے دہشتگرد حملوں کو بروقت روکا جا سکتا ہے، سکیورٹی بہتر بنانے کے علاوہ ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ بلوچستان کی محرومیاں دور کیے بغیر محض سکیورٹی مسائل حل کرنے سے امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے، بلوچستان میں ریاست مخالف عناصر کو بیرونی بالخصوص بھارتی اعانت میسر ہونے کے دستاویزی ثبوت بارہا دنیا کے سامنے رکھے جا چکے ہیں، ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کے علاوہ صوبے میں وسائل کی بہتر تقسیم بھی ضروری ہے‘ اور اس بات کی نگرانی بھی کہ وسائل کا مصرف عوام کی بھلائی اور فلاح ہو۔ یقینا گوادر پورٹ اور سی پیک اس حوالے سے گیم چینجر منصوبے ہیں، جس سے ناصرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کو بہت امیدیں ہیں البتہ ساری امیدیں کسی ایک منصوبے سے وابستہ کرنا درست روش نہیں ہے، اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت‘ دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور دونوں کو ان کا ادراک ہونا چاہیے، صوبے کے عوام کوصاف پانی‘ بجلی‘ گیس اور بہترین طبی سہولتوں کے علاوہ تعلیم وہنر کے اداروں کا قیام اولین حکومتی ترجیح ہونا چاہیے۔ اگرچہ اس ضمن میں افواجِ پاکستان نے خاصا کام کیا ہے اور صوبے میں متعدد تعلیمی اور ووکیشنل ادارے قائم کیے ہیں مگر حکومت کو ایسے اداروں کا دائرہ پورے صوبے میں پھیلانا چاہیے، بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی وعسکری قیادت اور بلوچ عوام وعمائدین کی شراکت اور تعاون ہی سے ممکن ہے۔
علیحدگی پسند تنظیموں کو شکست دینے کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنا ضروری ی ہے اور اس کے لیے عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا تاکہ یہ صوبہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزنن ہو سکے، اگرچہ یہ سفر طویل اور صبر آزما ہے مگر یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔