Column

تندرستی ہزار نعمت ہے

تحریر : صفدر علی حیدری
دسویں کی گرامر کی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘، اسی میں یہ شعر غالب کے حوالے سے پڑھنے کو ملا تھا
تنگ دستی اگر نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
پھر یہ شعر کچھ فرق کے ساتھ پڑھا
تنگ دستی اگرچہ ہو غالب
بعد میں معلوم پڑا کہ یہ شعر چچا غالب کا ہے ہی نہیں، یہ تو کسی سالک نامی شاعر کا ہے، اب یہ پتہ نہیں کہ یہ ہمارے عبدالمجید سالک کا ہے یا کوئی اور سالک ہے، بہر حال شعر یوں ہے
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
ویسے ’’ اگرچہ ہو سالک ‘‘ بھی کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔ اس کا احساس مجھے کچھ پہلے ہو گیا تھا۔ اپنے بچپن میں۔ جب نانی اماں میرے بڑے بھائی کو ایک انڈا ابال کر دیتی تھی اور میرے حصے میں آدھا انڈا آتا تھا۔ تب میری خواہش ہوا کرتی تھی کہ کاش مجھے بھی کبھی پورا انڈا ملتا۔ میری یہ خواہش جلد پوری ہو گئی۔ ہوا یہ کہ مجھے اچانک بخار نے آ لیا۔ مجھے کچھ بھی کھانا اچھا نہ لگتا تھا۔ نانی اماں میرے لیے دا انڈا ابالنے لگیں مگر میری حالت یہ تھی کہ مجھے سے آدھا بھی نہ کھایا جاتا۔ تب میں حسرت سے سوچنا کاش یہ انڈے مجھے تب ملتے جب میں صحت مند تھا۔
صحت سچ میں ایک نعمت ہے، جس کی قدر ہر اس کو ہے جو صحت کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ باب حکمت نے بجا فرمایا ہے کہ انسان کی سب سے اچھی ساتھی اس کی صحت ہے۔ انسان بھلے امیر نہ ہو مگر صحت مند ضرور ہو۔ اسے غربت میں بھی جینے کا مزہ آئے گا۔ آپ نے مزدور ضرور دیکھے ہوں گے اور جو وہ کھانا کھاتے ہیں وہ بھی آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا۔ ہوٹل کا بے مزہ کھانا جو یا تو دال ہوتی ہے یا سبزی۔ مگر ایسا کھانا کھا کر بھی وہ سارا دن کام کرتے ہیں اور اگلے دن پھر سے کام پر پہنچ جاتے ہیں۔
جو غریب ہے اور اس کی صحت بھی اچھی نہیں، یقینا اس کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں۔
ایک بار ایک شخص نے جناب امیر سے روحانیت کا نسخہ طلب کیا تو آپ نے اسے جو چار ہدایات دیں وہ صحت سے متعلق ہیں۔
بھوک ہو تو کھائو
بھوک رہتی ہو تو کھانا چھوڑ دو
خوب چبا کر کھائو
رات کو سونے سے پہلے رفع حاجت کرو
وہ شخص حیرت زدہ رہ گیا۔ اس کی حیرت بجا تھی۔ بھلا معدے کا روحانیت سے کیا تعلق۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ بابا فرید نے کیوں روٹی کو چھٹا رکن اسلام قرار دیا تھا۔ جب انسان کا کھانا ہی خالص نہ ہو۔ حلال نہ ہو تو اس کے اعمال کس کام کے۔
آج انسان بیماریوں کے جال میں پھنس چکا ہے۔ بیماری کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ اس کی کمائی کا بیشتر حصہ ادویات پر خرچ ہوتا ہے۔ انسان کا جسم خوراک اور منفی سوچ سے بیمار پڑ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوگر ، امراض قلب ، ہیپاٹائیٹس، کینسر، دماغی امراض اور گردوں کی بیماری میں ہمارا ملک ٹاپ پر ہے۔ ہمارے بچوں کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ حکومت کے فلٹریشن پلانٹ سے حاصل کردہ پانی بھی ناقص ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ قومی بجٹ کا انتہائی معمولی حصہ صحت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ گویا اونٹ کے منہ میں زہرہ۔ ہماری ریاست ہوتی تو اسے عوام کی فکر ہوتی۔ یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ نہ صاف پانی دستیاب ہے نہ خالص اشیا۔ ایک شہر میں درجنوں مساجد مل جائیں گی مگر کسی ایک جگہ بھی خالص دودھ نہیں ملے گا۔
اب یہی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی صحت کی خود فکر کرے ۔ اپنی سوچ اپنے کھانے پینے اور ماحول کی فکر کرے۔ توکل اور قناعت سے انسان اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی خیالات کا رخ مثبت سمت میں موڑ سکتا ہے اور پاک و صاف رکھ سکتا ہے۔ صاف پانی کے کے لیے گھر میں اسے ابالنے کا انتظام کر سکتا ہے۔ ماحول کی صفائی کے لیے گھر اور گلی کو صاف رکھنا ضروری ہے۔
اور باقی رہی کھانے کی بات تو اس کے لیے خاص احتیاط درکار ہے۔ حلال رزق شرط ہے ۔ پھر غذا کا متوازن ہونا بے حد ضروری ہے۔ اور متوازن غذا سے مراد یہ ہے کہ اس میں کاربوہائیڈریٹ کم از کم ہوں ۔ دوسرے نمبر پر پروٹین ہے اور غذا کا ستر فی صد حصہ فیٹس پر مشتمل ہونا لازمی ہے۔ آج کل اسے کیٹو کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد جمیل اس میدان کے شہہ سوار ہیں۔ ان کے لیکچرز خاصے کی چیز ہیں ۔ وہ آئل، گھی، چینی، کولڈ ڈرنکس اور جنک فوڈز کو زہر قرار دیتے ہیں ۔ ان کی تجویز کردہ کیٹو فوڈ سے چھ ماہ میں شوگر اور بلڈ پریشر کا علاج ممکن ہے۔ وہ اس خوراک کو ساری زندگی جاری رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ کیٹو خوراک میں کھانے کے علاوہ ورزش اور فاقہ بنیادی عوامل ہیں۔ وہ بارہ سے سولہ گھنٹے کا باقی لازمی قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ورزش ، صبح کی سیر اور ویٹ لفٹنگ بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کے بقول فاقہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے جسم کی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں حاصل ہونا والا ری سائیکلنگ کے بعد انسان کا اپنا جسم استعمال کرتا ہے تو اس سے جسم بیماریوں کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔
انسان ایک اچھی اور صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر اسلام کی حقانیت ثابت ہو جاتی ہے۔ اس میں سال میں ایک بار روزے رکھنے کی جو تاکید کی گئی ہے، اس کے انسانی جسم پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ویسے بھی روحانیت کے لیے انسان کا کم کھانا ، کم سونا ، کم بولنا اور زیادہ غور و فکر کرنا ضروری ہے ۔ جب انسان کھانے پینے کے معاملے میں احتیاط کرتا ہے تو کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
حکم سعید شہید اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک انسان کو دن میں دو بار کھانا کھانا چاہیے۔ یہی بات ڈاکٹر خالد جمیل بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق شام کو چھ بجے کھانا کھا لینا چاہیے اور اگلے دن دس بجے ناشتا کرنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو بارہ سو سولہ گھنٹے فاقہ کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ انسان چھ، آٹھ گھنٹے سویا رہتا ہے، سو فاقہ کرنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس فاقے کے دوران انسان پانی اور گرین ٹی قہوہ وغیرہ پی سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ بنا دوائی کے کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے اور شوگر بلڈ پریشر اور دماغی و امراضِ معدہ سے چھٹکارا پا سکتا ہے
باب مدینہ العلم کے فرمان پر اپنی بات ختم کرتے ہیں ’’ صحت مندی کا تعلق اچھے کھانے سے نہیں ہے، حسد نہ کرنے سے ہے ‘‘۔
اگر اپنے محلے کے غریبوں کا خیال رکھا جائے تو اس سے ہمیں روحانی صحت بھی مل جایا کرے گی
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

جواب دیں

Back to top button