Column

یہ ریت تو ایسے ہی چلے گی!

تحریر : شاہد ندیم احمد
اس حکومت سے عوام کی وابستہ ساری تو قعات ہی دم توڑنے لگی ہیں،یہ حکومت عوام کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بنتی جارہی ہے، لیکن حکمران دعویدار ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال لائے ہیں اور مہنگائی ،بے روز گاری میں کمی لائے ہیں، جبکہ ملک میں 40 فیصد عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، 2 کروڑ 65 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں،پاکستانی عوام کواپنی روز مرہ اشیائے ضروریہ پر 25 فیصد ٹیکس ادا کرکے بھی کچھ حاصل نہیںہو پا رہا ہے،ایک طرف عوام اپنے ہی ملک میںمہنگائی کے بوجھ تلے دب کر مر رہے ہیں تو دوسری جانب اپنی پریشانیوں کے ازالے کیلئے آئے روز بیرون ملک جاتے ہوئے کھلے سمندر میں ڈوب رہے ہیں،اس کی حکومت کو پروا ہے نہ ہی اپوزیشن کوئی نوٹس لے رہی ہے، دونوں کی ہی تر جیحات میں عوام کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ،دونوں نے ہی ہوس اقتدار میں عوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ رکھا ہے،یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا اور عوام بے یارو مدد گار بے موت مرتے رہیں گے۔
اگر دیکھا جائے تو عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، عوام کو بار باربہلایا جارہا ہے ، بہکایا جارہا ہے اور اپنے حصول مفاد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ،اس سے زیادہ عوام کی کوئی حیثیت ہے نہ ہی عوام کی کوئی حیثیت بحال کی جارہی ہے ، اس عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہنے والے ہی عوام کو کمزور بنائے جا رہے ہیں ، عوام سے حق رائے دہی چھینے جارہے ہیں ، عوام کے فیصلے ماننے سے ناصرف انکاری ہیں ،بلکہ عوام کے فیصلے کے بر خلاف جارہے ہیں ، عوام کو اپنے غضب کا نشانہ بنارہے ہیں اور عوام کو مجبور کررہے ہیں کہ اُن کی ہاں میں ہاں ملائی جائے ور اُن کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھائی جائے ، اگر کوئی آواز اُٹھائے گا یا آوازلگائے گا تو اس کا خمیازہ بھی بھگتے گا ،جیسا کہ اس اتحادی حکومت کے دونوں ہی ادوار میں بہت سے لوگ بھگت رہے ہیں ۔
یہ سب کچھ جمہوری حکو مت میں جمہور کے ساتھ نہیں ہو نا چاہئے ، مگر اس جمہوریت کے لبادے میں آمر یت جمہور کے ساتھ جو سلوک روارکھ رہی ہے ،اس طرح کا سلوک تو کبھی آمرانہ دور میںبھی رواں نہیں رکھا گیا ہے ،آزادی اظہارہے نہ ہی کوئی حقائق بیاں کر سکتا ہے ، ایک ایسا بن کچھ کہے ،بن کچھ سنے ،سنسر شپ ہے کہ سب کی ہی بولتی بند ہو گئی ہے ، کوئی آزادانہ لکھ پارہا ہے نہ ہی آزادانہ بول پارہا ہے ، ہر کوئی ڈرا ہوا ہے ، ہر کوئی سہما ہوا ہے ، کسی کو کچھ پتا نہیں ہے کہ کب کہاں سے اُٹھا لیا جائے اور کہاں غائب کر دیا جائے ، اس خوف و ہراس کی فضا میں بلاول بھٹو زرداری فر مارہے ہیں کہ نفرت کی سیاست ختم کر کے محبت کی فضا قائم کر یں گے ،لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس نفرت کی بنیاد رکھنے والے خود ہیں کہ جنہوں نے ایک سازش کے تحت بندے توڑ کر تحریک عد م اعتماد کا میاب بنائی اور ایک چلتی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کر دی،لیکن اب انہیں اپنا ہی بو یا کا ٹنا ہو گا اور اس انتشار اور نفرت کی سیاست کے ساتھ ہی وقت گزارنا ہو گا ، یہ اپنے ہی ہاتھ سے لگائی آگ اتنی جلد بجھنے والی ہے نہ ہی نفرت کی سیاست ا تنی آسانی سے محبت میں بدلنے والی ہے۔
اس نفرت کی سیاست سے عوام کو سروکار ہے نہ ہی اس نفرت کو محبت میں بد لنے میں کو دلچسپی رکھتے ہیں ، عوام اپنے انتہائی بدتر حالات کی فکرلاحق ہے اور آئے روز بڑھتی مہنگائی، بے روز گاری سے پریشان حال ہیں ، جبکہ حکمران اپنی ہی خیالی مہنگائی کی کمی پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے مذاکراتی کھیل تماشہ جاری رکھنے پر زور دئیے رہے ہیں ،عوام کو کبھی ڈیل اور ڈھیل میں الجھا یا جارہا ہے تو کبھی امر یکہ کے دبائو میں نہ آنے کے بیا نیہ کے پیچھے لگایا جا رہا ، القادر ٹرسٹ کے فیصلے سی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے نہ ہی نواز شریف کی عمران خان کو سزا دلوانے کی خواہش پوری ہو نے سے سیاست بدلنے والی ہے، اس ملک کی سیاست میں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ، اقتدار پر بیٹھا اقتدار سے باہر جاسکتا ہے اور باہر بیٹھا اقتدار میں آسکتا ہے، اس ملک میں نفرت کی سیاست بدلے نہ بدلے ، مگر بیرونی دبائو پر ایک پیج پر دوسرا کسی وقت بھی بدل سکتا ہے، اس کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں ، سیاسی موسم بدلنے لگے ہیں، پس پردہ کچھ سائے تواتر سے ہلتے دکھائی دینے لگے ہیں ، اس ملک میں جب بھی کوئی ہارتا ہے یا کوئی معرکہ سر نہیں کر پاتا ہے تو ناکامی کا سہرا باندھنے کے لیے کوئی سر تلاش کر ہی لیا جاتا ہے ، کوئی مستعفی ہوتا ہے تو کوئی تبدیل کر دیا جاتا ہے، یہ ہی رِیت رہی ہے، جو کہ ازل سے چلی آ رہی ہے اور نجانے کب تک ایسے ہی چلتی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button