نپولین کے بیان کی تلاش

تحریر : سیدہ عنبرین
حکومت وقت کتنی طاقتور ہوتی ہے یہ وہی جانتے ہیں جو کبھی حکومت کا حصہ رہے ہوں، حکومت ختم ہونے پر زوال پذیر ہوئے ہوں یا کسی بات پر کسی اصول پر حکومت سے ٹکرائے ہوں، جدید دور کی حکومتیں، فقط چند روز میں گلیلو سے منوا سکتی ہیں کہ زمین سورج کے گرد نہیں گھومتی بلکہ سورج دیوانہ وار زمین کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے، وہ چاہیں تو ارشمیدس سے اصول ارشمیدس کے خلاف بیان دلوا سکتی ہیں کہ پانی اچھال نہیں رکھتا بلکہ انسان پانی کے ٹب میں بیٹھ کر خود بخود اچھلتا رہتا ہے، اس تمام طاقت و قوت کے استعمال کے باوجود اگر کسی ایک شخص سے اپنی بات نہیں منوائی جا سکی تو یقیناً وہ آہنی اعصاب کا مالک ہے، باتیں بھی کوئی ڈھنگ کی ہوتیں تو ان پر غور ہو سکتا ہے، یہاں تو ہر کام بے ڈھنگا ہے، ہر خواہش بے لگام اور سب سے بڑی خواہش کہ چار برس حق حکومت دیا جائے، اس کے عوض بڑی سے بڑی سہولت لے لو، دیگر خواہش یہ ہیں کہ سب کو برا بھلا نہ کہیں، بالخصوص چور چور کی رٹ چھوڑ دیں، اپنے یوٹیوبرز سے کہیں کہ وہ اپنی زبانیں بند کر لیں، اگر زبان کھولنا بھی ہے تو حکومت کی شان میں تبصرے پڑھیں، وہ نہیں مانتے تو ان سے لاتعلقی کا اظہار کریں، امریکہ اور لندن کے علاوہ کسی اسلامی ملک چلے جائیں، ڈیل کو چار مرتبہ ٹھوکریں لگ چکی ہیں، اب ڈیل بھی اس ڈیوڑھی کا رخ کرنے کو تیار نہیں۔ یوں وہ ملاقات ہوئی، جس کا بیرسٹر گوہر نے اقرار کیا تو میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا پرچار کرایا گیا کہ کوئی ملاقات نہیں، جب جھوٹ بیچ چوراہے پکڑا گیا تو نیم دلی سے حکومتی اکابرین تسلیم کرتے نظر آتے ہیں لیکن اب اس ملاقات کو’’ لاء اینڈ آرڈر ملاقات‘‘ کہا جا رہا ہے۔
ملاقات تو ملاقات یہی ہوتی ہے، اس میں کوئی لاہوری شامل نہیں، چھ مرتبہ نہیں پوچھتا ’’ سرکی حال اے‘‘ کام کی بات شروع ہوتی ہے اور بات بڑھانے پر رضا مندی ظاہر کی جاتی ہے یا کہہ دیا جاتا ہے مزید بات کی کوئی گنجائش نہیں ، بالکل اسی طرح جس طرح جاری مذاکرات کا انجام ہوگا۔
وہ جو کہتے تھے تخریب کاروں سے بات نہیں ہو سکتی، انہوں نے پابند سلاسل کو ایک سیاسی قوت مان لیا ہے، جو کہتے تھے الیکشن2029ء میں ہونگے، وہ اس سے قبل بھی الیکشن کرانے پر تیار ہوتے نظر آتے ہیں، وہ مقدمات واپس لینے اور بے گناہ قیدیوں کی رہائی کیلئے آمادہ ہوا ہی چاہتے ہیں، سلسلہ الیکشن کے ماہ و سال پر رکا ہوا ہے، حکومت ایک سے دو برس پیچھے آ سکتی ہے، لیکن قیدی بھائی کہتے ہیں سالوں کی نہیں مہینوں کی بات کرو، نہیں کرتے تو یہ کچھ اپنے پاس رکھو، مجھے کچھ نہیں چاہیے، جہاں چار مقدمے انجام کو پہنچے ہیں، وہاں مزید چالیس بھی ختم ہو جائینگے، مقدمے کس طرح چل رہے ہیں، فیصلے کس طرح ہو رہے ہیں، نیا ٹریلر چلنے اور اس کے نتیجے میں اہم عدالتی شخصیت کا کردار واضع ہونے کے ساتھ عدالتی نظام کا کردار مزید واضح ہو گیا، کبھی کبھی تو لگتا ہے جوبائیڈن امریکی حکومت چلانے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی اپنی کنسلٹینسی چلا رہا ہے، امریکہ میں حکومت ختم ہو چکی ہے، اب یہاں فل ٹائم پریکٹس کی گنجائش موجود ہے۔
سرکاری صفوں میں بیٹھے ہوئے سوال پوچھ رہے ہیں اس کی گارنٹی کون دے گا، قوم پوچھ رہی ہے پہلے ہمیں فیئر اینڈ فری الیکشن کی گارنٹی دینے والوں کے نام بتائو، جو ہمیشہ اپنی چھتری تلے الیکشن کراتے رہے ہیں ان کی گارنٹی اور بینک گارنٹی دونوں رسوا ہوچکی ہیں، اب میڈیا اونرز کو نگران قبول نہ کیا جائے گا، جن کا مینڈیٹ تھا کہ ہر دھاندلی کو آزادانہ اور منصفانہ قرار دینے میں میڈیا کو استعمال کریں اور جھٹکے کے گوشت کو ذبیحہ ثابت کریں ۔
ماہ فروری کے ختم ہوتے ہی سرکار کے تیور بدل سکتے ہیں، اس وقت تک ایک مجبوری دامن گیر ہے، الیکشن کے ایک سال بعد تک الیکشن ریکارڈ رکھنا مجبوری ہے، سال گزرنے کے بعد مبینہ طور پر اسے تلف کیا جا سکتا ہے، جونہی یہ سال ختم ہوگا، سر پر لٹکی ایک تلوار ہٹ جائیگی، پھر زور و شور سے الاپ شروع ہوجائے گا کہ الیکشن آزادانہ منصفانہ تھے، جسے اعتراض ہے تو ٹریبونل میں جائے اور چار برس تک مزید دھکے کھائے، جو اس سے قبل بھی ہم متعدد مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ حکومت کی ٹرم ختم ہونے سے چند ماہ قبل تک متنازعہ انتخابات ہوا میں لٹکے رہتے ہیں، پھر اچانک فیصلہ آ جاتا ہے، اس مرتبہ یہ ٹال مٹول زیادہ عرصہ نہ چل سکے گی، لاس اینجلس میں تو آگ بھڑکی تھی، یہاں آگ تو شاید نہ بھڑکے اور کوئی طوفان ضرور آئے گا، طوفانی کیفیت میں معیشت کا کیا بنے گا ؟، عام آدمی کو اس بات کی فکر ہے، سرکار کو نہیں، یہاں ادھار ملنے پر رقص شروع ہوجاتا ہے۔ تازہ ترین اطلاع دو خلیجی بینکوں سے مل رہی ہے جو مارکیٹ ریٹ سے کچھ مہنگا قرض دینے پر تیار ہوئے ہیں، شرح چھ سے سات فیصد بتائی جا رہی ہے، جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شرح سود سے دوگنا ہے، من موہن سنگھ دور میں ایک مرتبہ بھارت پر کڑا وقت آیا تو انہوں نے قرض لینے کا سوچا، وہاں بھی بین الاقوامی مہاجن بیٹھے تھے، انہوں نے فوراً عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا۔ من موہن سنگھ نے معلوم کیا تو شرح سود بہت زیادہ پائی، انہوں نے کم ترین سود پر بینک آف انگلینڈ سے معاہدہ کیا اور کئی ٹن سونا بھارت سے اٹھا کر وہاں گروی رکھ دیا، اس قرض کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ قرض بمع سود ادا کر کے یہ سونا واپس بھی لے لیا گیا یہ نہیں ہوا کہ قرض اور سود کی اقساط ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے اپنے سونے کے ذخائر فروخت کرتے رہتے اور آخر میں ہاتھ اور دامن جھاڑ کر قوم سے کہتے ہم نے ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں سونا فروخت کر دیا، کیونکہ یہ قیمتی چیزیں ہوتی ہی اس لیے ہیں کہ جب روٹی کے لالے پڑ جائیں تو انہیں فروخت کر کے قوم دال روٹی اور سرکار مٹن پلائو کھائے اور چین کی نیند سوئے۔
معاشی ترقی کا ڈھنڈورا خوب پیٹا جا رہا ہے، لیکن عین اس موقع پر آئی ایم ایف نے یہ کہہ کر رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے کہ پاکستان میں شرح نمو3.5فیصد نہیں ہو گی، لہٰذا اسے کم کر کے ہم صرف 3فیصد کر رہے ہیں، ضرور ی تھا اس مالیاتی گالی کا جواب دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ہم اپنا ہدف حاصل کر کے دکھائیں گے، جواب یہ دیا گیا ہے کہ 2028ء تک6فیصد شرح نمو حاصل کر لیں گے، یہ کہنے والے 2028ء تک منصب پر موجود ہی نہ ہوئے تو قوم کس سے سوال کرے گی؟۔ معاشی ترقی کے پیچھے کئی ہزار ارب ڈالر کے قرض اور اقساط اور سود ادا کرنے کے معاملات حقیقت حال واضع کیے ہوئے ہیں، پھر بھی اگر ایک بیان کہیں سے تلاش کر لیا جائے تو سرکار کی ساکھ کو سہارا مل سکتا ہے۔ وہ بیان یہ ہے کہ عظیم سپہ سالار نپولین نے کہا تھا کہ اگر مجھے پاکستان کی معاشی ٹیم مل جاتی تو میں جنگ میں شکست نہ کھاتا بلکہ اپنے مقابل کو شکست فاش دیتا۔