ملک ریاض کے دوبئی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری منی لانڈرنگ تصور ہوگی٬ نیب

قومی احتساب بیورو (نیب) نے لوگوں کو ’تنبیہ‘ کی ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے دُبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔
منگل کو جاری ایک بیان میں نیب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملک ریاض اس وقت ’عدالتی مفرور‘ کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں اور انھوں نے وہاں ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔
’عوام الناس کو اس حوالے سے تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ مذکورہ پراجیکٹ کے اندر کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا یہ قعل منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئے گا۔‘
نیب کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیرِ تفتیش ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’نیب کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کرچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بھی ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائیٹیز قائم کی ہیں اور وہ لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقم وصول کر رہے ہیں۔
نیب کے بیان کے مطابق ملک ریاض 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہیں اور ان کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔
یہ وہی کیس ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید کی سزا سُنائی ہے۔
عدالت نے اس مقدمے میں ملک ریاض کی کی مسلسل عدم پیشی پر انھیں گرفتار کرنے اور ان کے ملک میں موجود اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن یا ملک ریاض کی جانب سے کوئی بیان نہیں جاری کیا ہے۔ تاہم گذشتہ برس راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر چھاپوں کے بعد ملک ریاض نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ: ’ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا۔ جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔‘