CM RizwanColumn

غزہ جنگ بندی، ٹرمپ کی جیت

تحریر : سی ایم رضوان

آج غزہ جنگ بندی کو بجا طور پر نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کارکردگی قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس حوالے سے جو بائیڈن انتظامیہ کا بھی حصہ ہے اور خاص طور پر حماس کا تعاون بھی ناقابل فراموش ہے۔ علاوہ ازیں معاہدہ کاروں کی کارکردگی بھی قابل ذکر ہے۔ اس جنگ بندی معاہدے کی ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار کبھی بھی آمنے سامنے نہیں آئے لیکن مذاکرات کے اختتام پر ان میں عمارت کی ایک منزل کا فرق تھا۔ قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں کے توسط سے ایک ناامید ماحول میں بھی جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت کئی مہینوں سے جاری تھی لیکن پھر ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب اس جنگ کے کلیدی کھلاڑی دوحہ کی ایک عمارت کے اندر تھے اور ان کی رفتار حد سے زیادہ تیز تھی۔ ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ قریب تھا اور ایک سٹیج تیار کیا جا رہا تھا تاکہ قطری وزیر اعظم اس امر کا اعلان کر سکیں لیکن ذرائع نے بتایا کہ معاملات ذرا خراب ہو گئے تھے اور آخری لمحات میں مذاکرات کے ناکام ہونے سے روکنے کی کوششیں کی جارہی تھیں۔ ان مذاکرات پر قریب سے نظر رکھنے والے ذراءع نے بتایا کہ درحقیقت مذاکرات پریس کانفرنس سے 10منٹ پہلے تک جاری تھے اور آخری لمحات میں معاملات کو سلجھایا گیا مذاکرات کے تمام فریقوں کے متعدد عہدیدار خفیہ عمل کے آخری لمحات تک ہمہ تن گوش اور مصروف کار رہے۔ تب جا کر دنیا کا یہ اتنا اہم معاہدہ ہوا۔
15جنوری کو طے پانے والے معاہدے کا مجموعی فریم ورک وسیع پیمانے پر وہی تھا جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ مئی میں وائٹ ہاس کے خطاب کے دوران پیش کیا تھا۔ ان میں وہی تین مراحل نظر آئے، یعنی پہلے جنگ بندی، پھر فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، اور پھر غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا اور جنگ بندی، لیکن بات چیت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ دسمبر کے وسط میں مذاکرات کے ڈائنامکس فیصلہ کن طور پر بدل گئے اور اس کی سمت و رفتار میں بھی تبدیلی آئی۔ حماس دو ماہ قبل غزہ میں اپنے رہنما یحییٰ سنوار کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شدید تنہائی کا شکار ہو گئی تھی جبکہ دوسری جانب لبنان میں قائم اس کی اتحادی حزب اللہ کو ختم کر دیا گیا اور اس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کر لیا۔ شام میں بشار الاسد کی ایران نواز حکومت بھی ختم ہو چکی تھی۔ جیسا کہ ایک امریکی اہلکار کا خیال ہے کہ واشنگٹن میں یہ نظریہ گشت کر رہا ہے کہ حماس کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ کسی ’ گھڑ سوار فوج کی آمد‘ کا انتظار چھوڑ دے کہ وہ آ کر اسے بچائے گی۔ بات چیت سے واقف بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ اس بات کو بتانا مشکل ہے کہ بنیادی طور پر حساب کتاب کتنے بدلے اور اس سے حماس کے حساب کتاب میں کتنی تبدیلی آئی۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے کہا کہ حماس معاہدے کرنے کے لئے جلدی میں نہیں تھی اور وہ مذاکرات کے بجائے اپنی شرائط لکھوا رہی تھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ سنوار کی ہلاکت اور خطے میں حماس کے اتحادیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آئی۔ علاوہ ازیں اہلکار نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے رفتار بڑھائی گئی کیونکہ بائیڈن کی وائٹ ہاس اور آنے والی ٹرمپ ٹیم کو اس کی جلدی تھی۔ اہلکار نے مزید کہا کہ ہم اس طرح کا معاہدہ اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ حالات تبدیل نہ ہوئے ہوتے۔
12دسمبر کو بائیڈن کی مذاکراتی ٹیم نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو سے ملاقات کی۔ اس ٹیم میں وائٹ ہاس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، مشرق وسطیٰ کے ایلچی بریٹ میک گرک اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز سبھی موجود تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ ملاقات کئی گھنٹے تک جاری رہی اور یہ کہ اس میں نئے علاقائی حساب کتاب پر توجہ مرکوز کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم اس طرح لبنان میں جنگ بندی سے غزہ پر گہری بات چیت کے دوسرے مرحلے تک پہنچے۔ اس مرحلے پر بساط پر ایک اور مہرہ بھی تھا اور وہ مہرہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ 16دسمبر کو صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی فتح کے چند ہفتوں بعد حماس کے ایک اہلکار جو جنگ بندی کی کوششوں کے بارے میں غیر معمولی طور پر پُر امید تھے نے میڈیا کو یہ اشارہ دیا کہ وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔
دسمبر کے دوران یہ عمل مسائل میں گھرا رہا۔ اسرائیل نے عوامی سطح پر بعض ہائی پروفائل قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ وائٹ ہائوس نے حماس پر یرغمالیوں کی رہائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگایا۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ حماس نے اتفاق کرنے سے انکار کر دیا تھا اور معاہدہ وہیں پر ختم ہو رہا تھا معاہدے کے پہلے حصے میں رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کی فہرست پر ہی وہ اتفاق نہیں کر رہے تھے۔ یہ بہت بنیادی بات تھی۔ یہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ تھا۔ جب تک آپ یرغمالیوں کی فہرست سے اتفاق نہیں کرتے جو باہر آئیں گے، کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی عہدیدار نے کہا کہ حماس نے یرغمالیوں کے مقام کا علم نہ ہونے کے بارے میں مکمل طور پر جھوٹے دعوے کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس بات پر قائم رہے کہ جب تک کہ حماس یرغمالیوں کی فہرست پر راضی نہ ہو جائے ہم میز پر نہ بیٹھیں گے۔ ایک اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ حماس نے زندہ یرغمالیوں کی تعداد چھپانے کی کوشش کی اور یہ دھمکی دینے کی کوشش کی کہ وہ ہمیں صرف لاشیں بھیجیں گے۔
اپنے طور پر حماس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے غیر متوقع طور پر یرغمالیوں کی فہرست میں 11نام شامل کیے جنہیں وہ پہلے مرحلے میں رہا کرنا چاہتا ہے۔ حماس کے نزدیک یہ لوگ ریزرو فوجی تھے کیونکہ نہ تو وہ خواتین تھے نہ زخمی تھے اور نہ ہی معمر یرغمالیوں میں شامل تھے۔ قطری اور مصری ثالثوں کے لئے کوششیں جاری رکھنے کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا اور تین جنوری کو ایک واضح پیش رفت ہوئی جب حماس نے بدلے میں عمر قید کی سزا پانے والے 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیں۔ مذاکرات کے اس مرحلے کے دوران حماس نے دو دیرینہ مطالبات سے بھی دستبرداری اختیار کی جس میں پہلے مرحلے میں غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء اور مکمل جنگ بندی کے لئے رسمی اسرائیلی عزم کا اعادہ شامل تھا۔ ایسے میں ایک پیش رفت کا احساس کرتے ہوئے مصری ثالث نے فوری طور پر میجر جنرل احمد عبدالخالق کو دوحہ روانہ کیا کیونکہ وہ مصری انٹیلی جنس میں فلسطینی پورٹ فولیو کی نگرانی کرتے ہیں۔ حماس کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ گروپ وہی کرے گا جسے حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے ’ تکلیف دہ رعایت‘ قرار دیا ہے لیکن 6جنوری کو اسرائیل نے حماس کی طرف سے 11یرغمالیوں کے متعلق پیش کش کو مسترد کر دیا۔ حماس نے میڈیا اداروں کو 34اسرائیلی یرغمالیوں کے نام اور عمروں کی فہرست بھیج کر جواب دیا۔ دو دن بعد اس فہرست میں شامل افراد میں سے ایک یوسف الزیادنی کی لاش غزہ کے اندر ملی۔ اس فہرست میں ریزرو فوجی بھی شامل تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس پہلے مرحلے میں انہیں رہا کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔
یہ نتن یاہو کو شرمندہ کرنے اور اسرائیل اور دنیا بھر میں یرغمالیوں کے لئے کوشش کرنے والے خاندانوں کو اس معاہدے کو قبول کرنے کے لئے دبائو ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ حماس مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ چند میٹر کے فاصلے پر مذاکرات کے آخری مرحلے کے دوران دوحہ کی گرم شاموں میں چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں عام ہو گئیں۔ تفصیلات سے واقف متعدد حکام کے جائزوں کے مطابق پچھلے مہینے یہ ملاقاتیں ایک ہی دو منزلہ عمارت میں دونوں فریقوں کے درمیان نام نہاد ’ نزدیکی بات چیت‘ میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ حماس کا وفد پہلی منزل پر تھا اور اسرائیلی وفد اوپر کی منزل پر۔ ثالث ان کے درمیان دستاویزات لے کر دوڑتے رہے۔ اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کی تجاویز کے نقشے اور رہائی کے لئے تیار کیے گئے یرغمالیوں یا قیدیوں کے بارے میں تفصیلات ادھر سے ادھر آتی جاتی رہیں۔ یہ درست ہے کہ اس میں بہت زیادہ کام درکار ہوتا ہے اور یہ کہ سب کچھ آخری مرحلے تک مکمل طور پر طے نہ ہو سکا تھا۔ اسی عمارت کے اندر وفود نے قطر اور مصر کی سینئر شخصیات سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان مذاکرات میں قریب سے شامل افراد میں قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی بھی شامل تھے۔ مذاکرات کے آخری مراحل میں دو اہم شعبوں پر کام کیا گیا۔ ایک حماس اور اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی فہرستوں اور دوسرا پہلے مرحلے کے دوران غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی پوزیشن پر۔ نو جنوری تک دبا بڑھ گیا تھا۔ ٹرمپ کے ایلچی، بائیڈن کے ایلچی، اور مصری انٹیلی جنس چیف نے دوحہ میں آٹھ گھنٹے تک سنجیدہ مذاکراتی اجلاس کیے۔ ایک مصری اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ ایک معاہدے تک پہنچنے کے قریب ترین مقام پر تھے۔ 90فیصد تصفیہ طلب امور پر معاہدہ ہو چکا تھا تاہم مزید بات چیت کی ضرورت تھی۔ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لئے حال ہی میں تعینات کیے گئے ایلچی سٹیو وٹکوف کو نتن یاہو سے ملاقات کے لئے تل ابیب روانہ کیا گیا۔ اگرچہ ابھی تک باضابطہ طور پر وہ اپنے عہدے پر فائز نہیں ہوئے تھے لیکن نیویارک کے پراپرٹی ٹائیکون بات چیت میں زیادہ سے زیادہ شامل ہو چکے تھے اور ٹرمپ اس میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ انہیں ایک ایسے کام پر بھیجا جانے والا تھا جو اہم ثابت ہوا۔ وٹکوف کو نتن یاہو سے ملنے سے پہلے سبت کے ختم ہونے تک انتظار کرنے کو کہا گیا لیکن رسم و رواج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایلچی نے انکار کر دیا اور وزیر اعظم سے فوری ملاقات کا مطالبہ کیا۔ ایسا لگا کہ نیتن یاہو میٹنگ کے دوران شدید دبائو میں تھے اور ٹرمپ کیمپ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کو اپنے حتمی تحفظات کو دور کرنے کے لئے کی جانے والی مداخلت بہت اہم تھی۔ یہ ملاقات مبینہ طور پر فتنہ انگیز تھی اور آنے والے صدر کی طرف سے نتن یاہو کو پیغام واضح تھا کہ ٹرمپ ایک ڈیل چاہتے ہیں، اب اس ڈیل کو مکمل کریں۔ بہرحال اب تک یہ حقیقت سامنے آ چکی تھی کہ ایک معاہدہ سامنے آ چکا ہے اور عوام کی توقعات بڑھ رہی تھیں اور کم از کم غزہ کے اندر یرغمال بنائے گئے اور بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کی توقعات تو بڑھ ہی گئی تھیں۔ آخری 72گھنٹوں کی بات چیت میں باریک بینی سے بات چیت کی گئی کہ اس معاہدے کو کیسے نافذ کیا جائے گا۔ مذاکرات کے ایک قریبی ذرائع نے بتایا کہ غزہ میں یرغمالیوں کو کس طرح رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء کی نقل و حرکت کے لئے کیا ’ انتظامات‘ ہوں گے اور ’ رسد‘ کیا ہوگی ان پر زیادہ زور دیا گیا۔
12جنوری کو مذاکرات سے واقف ایک فلسطینی اہلکار نے کہا کہ تمام اہلکار یہاں ایک ہی عمارت میں ہیں اور آج کی رات فیصلہ کن ہے۔ ہم ایک معاہدے سے صرف چند قدم دور ہیں۔ یہ ملاقات چھ گھنٹے تک جاری رہی اور پہلے کی طرح کئی بار تعطل کا شکار بھی ہوئی۔ اس بار جو اختلاف پیدا ہوا وہ جنوبی غزہ سے شمال کی طرف بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کے طریقہ کار پر تھا۔ اسرائیل واپس آنے والوں اور ان کی گاڑیوں کی تلاشی لینا چاہتا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی عسکریت پسند یا فوجی سازوسامان نہیں لے جایا جا رہا ہے، جسے حماس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ثالثوں نے تجویز پیش کی کہ قطری اور مصری تکنیکی ٹیمیں اس کی بجائے تلاشی لیں۔ دونوں فریقوں نے اتفاق کیا اور باقی ماندہ تعطل میں سے ایک کو حل کر لیا گیا۔ 15جنوری کو شام چھ بجے کے فوراً بعد حماس کے ایک مذاکرات کار نے ایک پیغام میں لکھا کہ سب کچھ ہو گیا ہے۔ یوں ایک ایسا معاہدہ جو کبھی ناممکن نظر آتا تھا وہ ہو رہا تھا۔ اور بالآخر جنگ بند ہوئی اور آج فلسطینی متاثرین کے لئے امدادی سامان تقسیم ہو رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button