Column

امریکی نظام فعال اور ہمارا زندہ درگور کر دیتا ہے

محمد ناصر شریف

امریکہ میں ایک خاتون سرکاری طور پر ’’ مردہ’’ قرار دیئے جانے پر حیران و پریشان رہ گئیں اور محکمے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی نیکول پولینو نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کیلئے درخواست دی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ تجدید کیلئے درخواست کے جواب میں موبائل پر محکمے کا ایک تحریری پیغام موصول ہوا جس میں انہیں مطلع کیا گیا تھا کہ محکمے کے ایڈمنسٹریشن سسٹم کے ریکارڈ میں وہ ایک ایسی خاتون کے روپ میں ریکارڈ کا حصہ ہیں، جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہ صرف حیران و پریشان رہ گئی بلکہ ایسا لگنے لگا کہ جیسے میں زندہ نہیں ہوں۔ میں غلط بیانی سے کام نہیں لے رہی، مگر میں کسی حد تک گھبرا گئی تھی اور حیران اسلئے تھی کہ میں تو زندہ ہوں۔ اس کے بعد محکمے کے حکام کی جانب سے پولینو کو مطلع کیا گیا تھا کہ وہ اپنا لائسنس تجدید نہیں کروا سکتیں جب تک یو ایس ریونیو سروس کا لیٹر پیش نہیں کرتیں کیونکہ وہاں سے ان کو’’ڈیڈ ٹیکس پیئر’’ قرار دیا جا چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماں اور بچوں کی صحت کا ریکارڈ رکھنے والے شعبے کی جانب سے ان کی انشورنس کینسل کی جا چکی تھی۔ وہ یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑیں کہ اس واقعے نے میری زندگی تہہ و بالا کر دی اور ساتھ ہی زاروقطار رونے لگیں۔ اس سے نہ صرفر میری زندگی پر بہت فرق پڑا اور میری جسمانی و ذہنی صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کچھ دیر بعد انہیں سوشل سیکیورٹی آفیسر کی جانب سے کال موصول ہوئی اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹائپو اس واقعے کی وجہ بنا۔ انہوں نے بتایا کہ جنازوں سے متعلق
ڈپارٹمنٹ کسی اور کو رپورٹ بھجوانا چاہ رہا تھا تاہم غلطی سے آپ کو بھجوا دی گئی۔ سوشل سکیورٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس موجود ڈیٹا ہر لحاظ سے درست ہے اور ہر سال اس کو موصول ہونیوالی 30لاکھ سے زائد اموات کی رپورٹس میں صرف صفر اعشاریہ تین میں غلطی ہوئی، جن کو بعد میں درست کر دیا گیا اور ان کی تعداد 10ہزار کے قریب تھی۔اٹارنی مک سیلینڈ نے کہا کہ ایسا تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ سوشل سکیورٹی انتظامیہ نے بعد ازاں پولینو کو ایک لیٹر بھجوایا جس میں بتایا گیا تھا کہ غلطی کو درست کر دیا گیا ہے اور وہ سرکاری طور پر ’’ پھر سے زندہ’’ ہو گئی ہیں۔ایسا امریکا میں ہی ہوسکتا ہے جہاں اپنی غلطی سدھارنے کا جذبہ موجود ہے لیکن ہمارے پاس تو غلطیوں کو سدھارنا تو دور کی بات ہے اپنی غلطی کا ادراک کرنا بھی ناپید ہے۔
ایک اور واقعہ جو ہمارے فیس بک کے واقف کار کے ساتھ ہوا وہ خود اس طرح بتاتے ہیں کہ اگست 2023ء کی ایک تاریک رات، جب کراچی کی گلیاں خاموشی سے اپنے راز چھپا رہی تھیں، میری زندگی کا سکون ایک لمحے میں بکھر گیا۔ رات کے آخری پہر دو مسلح ڈاکو میری راہ میں رکاوٹ بنے اور مجھ سے موبائل فون اور 25ہزار روپے چھین کر اندھیرے میں غائب ہوگئے۔اگلے ہی دن میں نے لیاقت آباد تھانے کا رخ کیا۔ امید تھی کہ قانون میرا سہارا بنے گا۔ ایس ایچ او نے سمجھانے کی کوشش کی: ’’ مقدمہ درج نہ کریں، تین دن کے اندر آپ کا موبائل ڈاکوئوں سمیت برآمد کروں گا‘‘۔ لیکن جب میں نے مقدمہ کے اندراج پر زور دیا تو بالآخر ایف آئی آر درج ہوئی۔ حیرت انگیز طور پر تین دن میں موبائل برآمد بھی ہوگیا۔مگر اس برآمدگی کا المیہ یہ ہے کہ جس لڑکے سے موبائل ملا وہ معصوم تھا۔ پولیس نے اسے محض تکنیکی بنیادوں پر گرفتار کیا۔ جب ایس ایچ او اور تفتیشی افسر نے مجھ سے اس کی شناخت کیلئے کہا، تو میرا جواب واضح تھا: ’’ یہ وہ لڑکا نہیں جس نے میرا موبائل چھینا تھا‘‘۔ عدالت میں اس لڑکے نے اعتراف کیا کہ اسے میرا موبائل حسن اسکوائر سے غریب آباد جاتے ہوئے سڑک پر پڑا ملا تھا۔ لالچ میں اس نے موبائل کا کوڈ ڈی ایکٹیو کروایا اور بیچ دیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرکے موبائل برآمد کرلیا مگر اس کے ساتھ ایک اور معصوم زندگی عدالتی چکر میں پھنسا دی گئی۔ میرا موبائل آج بھی تھانے میں سیل ہے، گویا کسی قید خانے میں بند ہو۔ یہ موبائل میری ملکیت ہے مگر عدالتی نظام اور قانونی پیچیدگیاں اس کی واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اس کے برعکس، اصل ڈاکو جو میرا موبائل اور 25ہزار روپے چھین کر لے گئے، آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ شاید وہ کسی اور کو لوٹ رہے ہوں، مگر انہیں پکڑنے کیلئے نہ کوئی سنجیدہ تفتیش ہو رہی ہے، نہ کوئی ٹھوس کارروائی۔
عدالتی نظام کی سست روی نے میرا وقت، پیسہ اور ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ ہر پیشی پر میں اور وہ لڑکا، جو اب ضمانت پر ہے، صبح سویرے عدالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف یہ سننے کیلئے کہ اگلی تاریخ دی جا رہی ہے۔ آج بھی میں اور وہ لڑکا صبح صبح جب عدالت پہنچے تو دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد ہمیں اگلے ماہ کی 20تاریخ ملی، انصاف کی منزل یہاں تاریخوں کے گورکھ دھندے میں کھو گئی ہے۔ کیا ہمارا عدالتی نظام صرف تاریخیں دینے کے لئے ہے؟ کیا تفتیش کا یہ حال ہے کہ اصل مجرموں کو چھوڑ کر ایک معصوم لڑکے کو عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جائے؟ نہ میرا 25ہزار ملا، نہ موبائل اور نہ ہی انصاف۔ جو ملا وہ صرف عدالتی نظام کی نااہلی کا کڑوا سبق اور تاریخ پر تاریخ کا بے مقصد انتظار ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور دلچسپ خبر قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر یہ ہے کہ لاہور میں اس وقت پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ 9مئی کے مقدمات میں کئی افراد ضمانت کروانے کے بعد غائب ہو چکے ہیں اور ٹرائل کا سامنا نہیں کر رہے۔ عام طور پر کسی ملزم کی ضمانت کوئی دوسرا شہری دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو فی الحال رہا کیا جائے اگر یہ عدالت میں مقدمے کا سامنا نہیں کرے گا تو اس کی باز پرس ضمانت دینے والے شخص سے ہو گی۔ 17جنوری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں صورتحال اس وقت دلچسپ ہوئی جب ایک ملزم کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر اسکے ضمانتی کو طلب کر رکھا تھا لیکن وہ بھی حاضر نہ ہوا۔ جب عدالت نے پولیس اور پراسیکیوشن سے اس بابت استفسار کیا تو پولیس نے عدالت کے روبرو ایک رپورٹ رکھی جس میں بتایا گیا کہ محمد علی نامی شہری نے لگ بھگ تین سو افراد کی ضمانتیں کروائی ہیں جو بنیادی طور پر جعلی ضمانتیں ہیں۔ عدالت نے رپورٹ کے بعد حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو اس شخص کیخلاف کارروائی کی ہدایت کی اور ریمارکس دیئے کہ جس شخص کی ضمانت دی گئی وہ تو اس سے بڑا ملزم ہے۔ اس کو پکڑ کر اس کیخلاف مقدمہ چلایا جائے۔
اسی عدالت میں ایک نعمان نامی ضمانتی نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ انہوں نے سرے سے کسی ضمانت دی ہی نہیں تھی۔ ان کا شناختی کارڈ اور رجسٹری کی کاپی کا چوری استعمال ہوا ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس شہری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ عدالتوں میں جعلی ضمانتیں دینے کا کلچر پرانا ہے تاہم اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے اتنے اہم کیسز میں جعلی ضمانتوں کا استعمال حیران کن ہے۔ اس تمام تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام کیوں اپنی حکومتوں کیخلاف سڑکوں پر اس طرح نہیں نکلتے، جس طرح کے مارچ اور دھرنے ہمیں ترقی پذیر ممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کا جواب یہ سمجھ آتا ہے کہ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی اختلافات کی وجہ سے ریاستی اداروں یا تنصیبات کو نشانہ نہیں بنانا کیونکہ یہی ادارے ان کو سہولتوں کی فراہمی کا ذریعہ ہیں، جبکہ دوسری جانب صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہوتی ہے، یہ مقام غور و فکر ہے، لہٰذا اس جانب بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button