بے زبان جنگلی جانوروں کیلئے ریسکیو فورس

تحریر: مرزا محمد رمضان
دنیابھر میں جنگلی جانوروں و پرندوں کو ریسکیو کرنے کا عمل کہیں نہ کہیں مختلف صورتوں میں دکھائی دیتا ہے کہیں اس سروس کو سرکار ی اداروں کے ذریعے روبہ عمل لایا جارہاہے اور کہیں غیر سرکاری تنظیمات ، گروہ اور انفرادی سطح پر سرانجام دیا جارہا ہے تاہم بین الاقوامی سطح پر جانوروں کو بچانے کی پریکٹس ثقافتی ، قانونی اور تنظیمی فریم ورک کی بنیاد پر مختلف ہوتی ہے البتہ بعض اصول اور طًور طریقے عام دیکھنے کو ملتے ہیں بعض ممالک میں مختلف ریسکیو آرگنائزیشنز بیمار، زخمی، زیر عتاب اور یتیم جنگلی جانوروں و پرندوں کی دیکھ بھال اور ان کی بحالی کے مراکز بنا تی ہیں اور جنگلی جانوروں کو مکمل صحت یاب اور بحالی کے بعد واپس اپنے مساکن میں آزاد کر دیتی ہیں ۔ بعض ممالک میں غیر سرکاری تنظیمیں ( این جی اوز ) جیسے انٹرنیشنل برڈز ریسکیو رائل سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف برڈز ( آر ایس پی بی ) ( یو کے ) یا ورلڈ اینیمل پرو ٹیکشن جیسے گروپس پرندوں کی آبادی کو بچانے اور ان کے تحفظ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں صوبائی و وفاقی سطح پر وائلڈ لائف ادارے اور ایجنسیاں ہیں جو جنگلی حیات کی ہنگامی صورتحال کو سنبھالتے ہیں۔ ایسے ہی قدرتی آفات جیسے سائیکلون، زلزلے، سیلاب اور وبائی امراض سے جنگلی جانوروں و پرندوں کو بچانے اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور اور پھر انہیں بحال کرنے کیلئے بھی مختلف قومی و بین الاقوامی گروپس جیسی انٹرنیشنل فنڈ فار اینیمل ویلفیئر ( IFAW) وغیرہ موجود ہیں جو متاثرہ جنگلی حیات کی بحالی کیلئے کام کرتے ہیں علاوہ ازیں بعض دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی جیسے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر ( آئی یو سی این ) اور ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ( ڈبلیو ڈ بلیو ایف) بھی مختلف شکلوں میں جنگلی حیات کو بچانے اور اس کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔
زیر عتاب زخمی اور بیمار جنگلی جانوروں و پرندوں کو بچانے اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کیلئے بھی خصوصی تکنیک اور طریقے درکار ہوتے ہیں اور اس میں لاپرواہی اور کوتاہی سے انسانی جانوں کے ضیاع کا بھی اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ بغیر پیشہ ورانہ تربیت جنگلی جانوروں کی ہینڈلنگ انہیں پکڑنا، ریسکیو کرنا اور علاج معالجہ نقصان کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ جنگلی جانور بھی متاثر ہوسکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسی صورتحال میں موقع پر یا تو پیشہ ور افراد جانوروں کے نزدیک جائیں یا ایسی سروس پر مامور سرکاری و غیر سرکار ی ادارے اور تنظیم کو مطلع کریں تا کہ وہ اپنے پیشہ ور ماہرین کے ہمراہ متاثرہ جنگلی جانوروں و پرندوں کو ریسکیو کر سکیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ جنگل میں یا کسی بھی کسی جنگلی درندے شیر، چیتے، تیندوے، بھیڑیے کو زخمی، زیر عتاب یا غیر محفوظ پاتے ہیں تو اس صورت میں ضروری ہے کہ آپ فوری طور پر نزدیکی سرکار ی و غیرسرکاری پیشہ ور اداروں و تنظیموں کو ایسے جانوروں کو ریسکیو کرنے کی اطلاع پہنچائیں البتہ اگر کوئی جنگلی جانور غیر درندہ ہے جیسے ہرن وغیرہ تو آپ صورتحال کو بھانپ کر کارگر ہونے کی صورت میں اسے ضرور ریسکیو کریں اور زخمی یا بیمار ہونے کی صورت میں فوراً محکمہ جنگلی حیات یا نزدیکی کسی بھی مددگار تنظیم کو اطلاع دیں ۔اگرچہ پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر وائلڈ لائف آرگنائزیشنز اور ادارے موجود ہیں جو جنگلی جانوروں و پرندوں کے تحفظ و فروغ کیلئے بڑے سرگرم ہیں اور جن کی کوششوں کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں تاہم پاکستان میں وائلڈ لائف کو ریسکیو کرنے کیلئے کوئی باقاعدہ مخصوص اور منظم فورس کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی جس کی دیگر ایمر جنسی ریسپانس کر نے والے اداروں کی طرح کوئی مخصوص ہیلپ لائن ہو جیسے 1122، 15،115ودیگر ہیلپ لائنز ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی مخصوص سہولت جہاں محض ایسے متاثرہ جنگلی جانوروں کا علاج معالجہ اور دیکھ بھال ہورہی ہو تاہم موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے ماحول دوست ویژن اور جنگلی حیات کے تحفظ و فروغ کیلئے ان کے خصوصی اقدامات کو آگے بڑھاتے ہوئے سینئر وزیر محترمہ مریم اورنگزیب جو کہ محکمہ جنگلات ، جنگلی حیات و ماہی پروری کی انچارج وزیر بھی ہیں نے محکمہ کے انتہائی زیرک ، فعال اور انتھک ڈائریکٹر جنرل مدثر ریاض ملک کی محکمہ کی ترقی و ترویج کیلئے سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بڑے گیم چینجرز منصوبوں کی ترجیحاً منظوری کی ٹھان لی اور جس کی بدولت جلد ہی محکمہ کو چیف منسٹر انیشیٹوز سمیت چند بڑے سود مند اور ثمر آور ترقیاتی منصوبے حاصل ہوئے جس میں وائلڈ لائف ریسکیو فورس کا منصوبہ بھی شامل ہے جس پر 2016.084 ملین لاگت آئے گی اور یہ اگلے تین سال میں مکمل ہوگا ۔ اس منصوبے کے تحت صوبہ محکمہ کے زیر انتظام تین مقامات پر سفاری زو لاہور، پیرو وال وائلڈ لائف پارک ضلع خانیوال اور لوئی بھیر وائلڈ لائف پارک ضلع راولپنڈی میں وائلڈ لائف ریسیکو سینٹرز بنائے جائیں گے جہاں وائلڈ لائف ریسکیو فورس بذریعہ ہیلپ لائن یا دیگر ذرائع سے اطلاع موصول ہونے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے جائے وقوعہ پہنچیں گے اور زخمی، بیمار یا زیر عتاب جانور پرندے کو ریسکیو کرکے فرسٹ ایڈ مہیا کریں گے بحالی کی صورت میں اسے آزاد کر دیں گے بصورت دیگر اسے نزدیکی ریسکیو سینٹر میں لاکر ضروری علاج معالجہ و بحالی تک دیکھ بھال کریں گے اور جب وہ جنگلی جانور یا پرندہ مکمل بحال ہو جائیگا اسے قدرتی ماحول میں اس کے مسکن میں آزاد کر دیں گے یا حسب ضرورت افزائش نسل اور جوڑا بندی کسی وائلڈ لائف پارک بریڈنگ سینٹر یا چڑیا گھر میں منتقل کر دیں گے۔ وائلڈ لائف ریسکیو فورس کی سروس 24گھنٹے میسر ہوگی اور صوبہ کے تینوں وائلڈ لائف ریسکیو سینٹرز میں موبائل ویٹرنری سروس کی سہولت بھی میسر کی جائے گی۔ وائلڈ لائف ریسکیو فورس کو کسی بھی ناگہانی صورتحال میں اطلاع دینے کیلئے عام عوام کیلئے ایک ہیلپ لائن مختص کی جائیگی۔ تینوں وائلڈ لائف ریسکیو سینٹرز میں ویٹرنری کلینک تعمیر کئے جائیں گے، شیر، ٹائیگر، ریچھ، بندر، چوپائیوں کیلئے انکلوژرز
پنجرے اور سک بلڈنگ بنائی جائیں گی، پرندوں، طوطوں اور یتیم جنگلی جانوروں و پرندوں کیلئے بھی پنجرے اور رہائش گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ جہاں پر انہیں پانی ، خوراک اور علاج معالجہ و دیگر بنیادی ضروری سہولیات میسر ہوں گی ۔ تمام وائلڈلائف ریسکیو سینٹرز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔ جدید لیپ ٹاپس، ہیوی ڈیوٹی ڈرون کیمرے تھرمل ٹیکنالوجی سے مزین، ڈی ایس ایل آر کیمروں ، وائرلیس کمیونیکیشن واکی ٹاکی معہ لانگ رینج ٹاورز، سولر ریچارج ایبل لائٹس سرچ لائٹس، جانوروں و پرندوں کیلئے جی پی ایس کالر ٹریکرز، میڈیکل ایکویپمنٹ، ایئر کولر ز، ہیٹرز ، انورٹرز، ایئر کنڈیشنرز اور ضروری فرنیچرز سے لیس کیا جائیگا۔ ہر سینٹر کو فیلڈ ڈیوٹی اور جانوروں کی ٹرانسپورٹیشن کیلئے چار گاڑیاں اور سٹاف کیلئے 10الیکٹرک موٹر سائیکل فراہم کئے جائیں گے ۔ کال سینٹر سروس اور الیکٹرانک کمیونیکیشن کی سہولت میسر کی جائے گی ۔اور یوں پاکستان میں پہلی سٹیٹ آف دی آرٹ وائلڈ لائف ریسکیو سروس کا قیام عمل میں آجائے گا جس سے بے زبان اس جنگلی مخلوق کو ناگہانی صورتحال میں عافیت حاصل ہوگی اور جو جنگلی جانور پرندے قدرتی آفات یا کسی حادثہ کی صورت میں بروقت ریسکیو نہ ہونے کی بدولت مر جاتے ہیں اب بروقت ریسکیو اور درکار علاج معالجہ ہونے کے بعد واپس قدرتی ماحول میں چھوڑ دئیے جائیں گے جس سے یقینا صوبہ کی جنگلی حیات کو مزید تحفظ و فروغ حاصل ہوگا اور بلاشبہ اس کارخیر کا کریڈٹ موجودہ حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب ، سینئر وزیر پنجاب اور محکمہ کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل وائلڈ لائف مدثر ریاض ملک کو جائے گا جنہوں نے بے زبان مخلوق کے اس دیرینہ مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے یہ مثالی اور قابل رشک منصوبہ بنایا ۔