Columnمحمد مبشر انوار

اختیارات کی تقسیم

محمد مبشر انوار (ریاض)
شرعی اعتبار سے کسی بھی ریاست کی بنیاد عدل و انصاف پر رکھی جاتی ہے کہ جس کے تحت شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے جبکہ قوانین احکامات الٰہی کے مطابق ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ریاست میں احکامات الٰہی یا شریعت محمدی کو قوانین کا منبع و ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ایسی ریاست معرض وجود میں آتی ہے جبکہ انسان کو اس زمین پر اللہ کا نائب یا خلیف تسلیم کیا جاتا ہے جس کا فرض منصبی احکامات الٰہی کا اپنی ریاست میں نافذ کرنا ہے۔ یہاں اس فرق سے بھی ہم سب واقف ہیں کہ احکامات الٰہی کا نفاذ ایک طرف انفرادی حیثیت میں ہے تو دوسری طرف اس کا نفاذ اجتماعی حیثیت میں ہے، انفرادی طور پر ہر شخص احکامات الٰہی کو اپنی ذات پر نافذ کرنے کا پابند ہے تو خلیفہ وقت ؍ حکمران وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت کے نفاذ میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہ ہو اور شریعت کو حقیقی معنوں میں نافذ العمل کرے۔ اسلامی ریاست یا معاشرے میں حکمران منتخب کرنے کا طریقہ کار موجودہ ؍ سکہ رائج الوقت یا دور جدید کے نظام سے قطعی مختلف ہے، تاہم اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ دور میں کوئی اسلامی ریاست کے معیار پر پورا بھی اترتی ہے یا فقط نام کے ساتھ اسلامی لگا رکھا ہے؟ بہرکیف بدلتے حالات کے ساتھ یہ طریقہ کار تبدیل ہو چکا ہے اور آج دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہور کا طریقہ رائج ہے۔ تاہم اس نئے نظام کے مطابق دنیا بھر میں سپریم قانون کی حیثیت یا درجہ ریاست کے دستور کو دیا جاتا ہے اور باقی تمام قوانین اسی دستور سے اخذ کئے جاتے ہیں، اسی دستور میں ریاست کے ستونوں کے فرائض منصبی اور اختیارات
درج ہوتے ہیں، جس کے مطابق ریاستی ستون بروئے کار آتے ہیں۔ قرون اولی کے ادوار میں حکمران وقت، مراد خلیف وقت کو منتخب کرنے والے لوگوں کی شوریٰ، اپنے وقت کے قابل ترین افراد پر مشتمل ہوتی تھی، جنہیں ایک اسلامی ریاست کے خدو خال اور خلیفہ ؍ حکمران کے اوصاف کا بخوبی علم ہوتا تھا اور وہ صرف برائے نام یا اقربا پروری کی خاطر کسی کی حکمرانی پر اس کا ساتھ نہیں دیتے تھے کہ ان کے ذہن میں ہمہ وقت اللہ کے حضور جواب دہی کا عنصر موجود رہتا تھا اور اس خوف کے بعد کوئی اور خوف انہیں اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ جہاں اور بہت کچھ بدلا وہیں ریاستوں کا تصور اور حق حکمرانی کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو گیا اور ریاست کی مقدس ترین دستاویز، اس کا دستور ؍ آئین بن گیا جبکہ دیگر تمام قوانین اس دستور سے ظہور پذیر ہونے لگے۔ تاہم ریاست کی کامیابی و ترقی و خوشحالی کا جو پیمانہ اللہ رب العزت نے اپنے احکامات کے ذریعے طے کیا، وہ پیمانہ ہی معیار بن گیا اور اس میں کسی اسلامی یا غیر اسلامی ریاست کی تخصیص ختم ہو گئی کہ اللہ رب العزت کے احکامات اس کی مخلوق کے لئے ابد تک طے ہیں۔ جو ریاست، حکمران یا قوم ان احکامات پر عملدرآمد، خواہ کلمہ گو مسلمانوں کی طرح کرے یا خلق خدا بن کر بغیر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، ان کی پیروی کرے، اللہ رب العزت اسے عزت و رفعت سے نوازتا ہے، اسے ترقی و خوشحالی عطا کرتا ہے اور ایسے معاشروں کی بنیاد عدل و انصاف پر ہی قائم دکھائی دیتی ہے، مساوات پر دکھائی دیتی ہے، بصورت دیگر ذلت و رسوائی ہی مقدر ٹھہرتی ہے کہ اللہ رب العزت اقوام میں دن پھیرتا رہتا ہے۔ جدید دور میں اس کو مزید وضاحت کے ساتھ، لاگو کیا جاتا ہے بالخصوص دور جدید میں ریاستیں جمہوری انداز میں بروئے کار آ رہی ہیں اور نظام حکومت چلانے کے لئے، ریاست کو تین ستونوں میں منقسم کرکے، ان کے فرائض و اختیارات واضح کر دئیے گئے ۔ ہر ستون کا دائرہ کار جہاں مختلف ہے، وہیں اس کے فرائض بھی منقسم ہیں اور ہر ستون کی حدود کار متعین ہونے کے باعث، کوئی بھی ستون دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے برعکس جہاں جمہوریت یا جمہوری روایات برائے نام اختیار کی گئی ہیں، وہاں پر ایسی مداخلت بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان برطانوی سامراج سے اسی جمہوری اقدار کے ذریعہ آزاد ہوا اور اسی پارلیمانی جمہوریت کو اپنا طرز حکومت بنایا لیکن اول روز سے ہی پاکستان اس برآمد شدہ طرز حکومت پر سو فیصد عمل درآمد کرنے سے قاصر رہا، ایک مسلمہ طرز حکومت کو اپنایا تو ضرور مگر اس کے ضروری لوازمات کو بوجوہ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے مکمل طور پر لاگو کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ پارلیمانی طرز حکومت میں ایک طرف جمہور کی رائے سے حکومتیں تشکیل پاتی ہیں تو دوسری طرف ریاست کے بنیادی تین ستونوں، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو دستور کے مطابق اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے، اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہوتے ہیں، جسے عرف عام میں اختیارات کی تین ستونوں میں تقسیم کہا جاتا ہے۔ ان اختیارات کی تقسیم کا مقصد صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ستون سے دانستہ یا نادانستہ ہونے والی غلطی کی اصلاح کسی دوسرے ستون سے ہو جائے تا کہ ملکی و قومی مفادات کو زک نہ پہنچے بشرطیکہ ہر ستون اپنے فرائض منصبی کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہو بالخصوص اگر اس میں مہارت بھی رکھتا ہو۔ پاکستان ، بعد از آزادی، تاحال دائروں کے سفر میں گرداں ہے اور اس پر نصف سے زیادہ وقت آمریت کے منحوس سائے رہے ہیں، دور آمریت میں کئے گئے غیر قانونی فیصلوں کو جواز دلوانے کے لئے کہیں مقننہ کا بازو مروڑا گیا تو کہیں عدلیہ کو دباؤ میں لایا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں قانون کی بالا دستی ہنوز ایک خواب ہے اور اداروں کے درمیان دھینگا مشتی آج بھی جاری ہے۔
افسوس اس وقت ہوتا ہے جب عوامی رہنمائوں میں بھی آمریت کی پوری پوری جھلک دکھائی دیتی ہے اور یہ خود ساختہ ’’ جمہوریت نواز‘‘ یا ’’ طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ کے ماننے والے بھی، عوامی حمایت سے محروم ہونے کے باوجود اقتدار نشین ہوتے ہیں اور پھر اس اقتدار میں رہتے ہوئے، عدلیہ و میڈیا کے پر کاٹنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اپنی ان کوششوں میں ایسی ایسی حماقتیں سرزد کرتے ہیں، عدلیہ کو قابو میں کرنے کے لئے جیورس پروڈنس کی جو دھجیاں بکھرتی ہیں، وہ اقوام عالم میں جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں، حد تو یہ ہے کہ ہم آج تک ججز کی تعیناتی پر ہی قائل نہیں ہو پائے کہ ججز کو تعینات کیسے کیا جائے گا؟26ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ، جسٹس سجاد علی شاہ کے، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طے کردہ اصول کو پھر بدل دیا گیا اور ایک مضبوط ہوتے نظام کو ازسر نو نئی شکل دے دی گئی، انتظامیہ کا عمل دخل، عدلیہ میں بڑھا دیا گیا۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ عدلیہ کے معزز جج صاحبان، جنہیں فائدہ پہنچا یا 26ویں ترمیم کے نتیجہ میں جن کے اختیارات سلب ہوئے مگر منصب ملا، ایسی ترمیم کے خلاف مقدمہ سننے کے لئے ہی تیار دکھائی نہیں دیتے۔ عدلیہ کے اختیارات پر قدغنیں لگا کر، عدالتی نظام کو انتظامیہ اپنے قابو میں تو کر چکی ہے لیکن عجلت میں کی گئی قانون سازی میں سقم آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں، اور توقع یہی ہے کہ آئینی بنچ کے ہوتے ہوئے بھی معاملات آئینی بینچ سے باہر سنے جا سکتے ہیں۔ گو کہ حکومت ہر طریقہ سے عدلیہ پر اثر انداز ہو رہی ہے، لیکن کہیں نہ کہیں ایسا راستہ نکل ہی آتا ہے کہ حکومتی غلطیوں کو چھپانے کی غرض سے عدلیہ مزید بڑی غلطی کر جاتی ہے، جیسا کسٹمز کے ایک مقدمہ میں بینچ کے ایک ممبر کو تبدیل کرتے وقت کیا گیا ہے اور سندھ ہائیکورٹ میں مقدمہ سننے کے باوجود جسٹس عقیل عباسی کو، جسٹس سعادت علی خان کی جگہ بینچ میں شامل کر دیا گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے نہ صرف پرانا بینچ بنانے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ ایک اہم ترین آئینی نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے کسی بینچ سے آئینی ترمیم سے اختیارات چھینے جا سکتے ہیں؟ اس کے ساتھ ہی مدعا علیہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یوں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں آرٹیکل 191۔Aاس بینچ کی زد میں آگیا ہے اور اگر اس بینچ کی سماعت کے دوران اس کو معطل یا کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو آئینی بینچ کی حیثیت کیا ہوگی؟ اصولا ہونا تو یہ چاہئے کہ سپریم کورٹ کو جلد از جلد 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مقدمات کو فل کورٹ میں سننا چاہئے کہ خواہ یہ آئینی معاملہ ہے اور موجودہ 191۔Aکے تحت اس کا اختیار سماعت آئینی بینچ کر سکتا ہے لیکن جیورس پروڈنس کے تحت کوئی بھی عدالت اپنے خلاف سماعت کیسے کر سکتی ہے؟ تاہم یہ قانون سے بڑھ کر اخلاقیات کی بات ہے، جو ایوانوں میں نظر نہیں آ رہی کہ اگر اس کا وجود ہوتا تو 26ویں ترمیم کر کے نہ آئینی بینچ بنایا جاتا اور نہ ریاست کے دوسرے ستون میں ’’ مداخلت‘‘ کی جاتی، کہ حکومت کوئی بھی ہو، اسے ’’ مداخلت‘‘ سے چڑ ہوتی ہے، اور نہ ہی ریاستی ستونوں کے مابین مسلمہ اختیارات کی تقسیم میں تجاوز کیا جاتا۔

جواب دیں

Back to top button