Editorial

کشتی کا ایک اور افسوسناک حادثہ، 44پاکستانی جاں بحق

آخر کب تک محنت و مشقت سے جوان کیے گئے بیٹے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اُنہیں اپنی تمام تر جمع پونجی سپرد کرنے کے باوجود زندگی کی بازی ہارتے رہیں گے۔ گزشتہ مہینے بھی 40 پاکستانی یونان میں مختلف کشتیوں کو پیش آئے حادثات میں جاں بحق ہوئے تھے جب کہ 2023ء میں یونان میں پیش آیا کشتی کا بڑا حادثہ 300 پاکستانیوں کی زندگیاں نگل گیا تھا۔ اس کے باوجود پاکستانی نوجوان انسانی اسمگلروں کا مسلسل ایندھن بن رہے ہیں۔ اُن کی جانب سے لگوائی جانے والی ڈنکیاں نوجوانوں کو اِس دُنیا سے کوچ کروارہی ہیں۔ کوششوں کے باوجود ملک سے انسانی اسمگلنگ کا قبیح دھندا بند نہیں کرایا جاسکا ہے۔ محض دِکھاوے کے لیے کچھ کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان کے سرکاری سہولت کاروں کو پکڑا جاتا ہے۔ پھر وقت کی گرد پڑنے کے ساتھ معاملہ سرد ہوجاتا ہے اور پھر سے اگلے کسی حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مسلسل کشتی حادثات میں ہمارے سیکڑوں نوجوان جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے آج بھی آزاد ہیں اور اب بھی اُتنے ہی طاقت ور ہیں، اُتنی ہی شدّت سے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے، اُتنی ہی شدّت کے ساتھ آج بھی مستقبل کے لیے سہانے خواب آنکھوں میں سجانے والے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں۔ تبھی تو مسلسل کشتی حادثات رونما ہورہے ہیں۔ اب ایک اور نیا افسوس ناک حادثہ اسپین میں پیش آیا ہے، جس میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکینِ وطن جاں بحق ہوگئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق افریقی ملک موریطانیہ سے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والوں کی کشتی کو حادثہ پیش آیا ہے، جس کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکین وطن جان کی بازی ہارگئے۔ خبر ایجنسی کے مطابق 86 تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ مراکشی حکام کا کہنا ہے کہ کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے، کشتی حادثے میں 36 افراد کو بچالیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 12جنوری کو اسپین میری ٹائم ریسکیو کو کشتی کی گمشدگی سے آگاہ کردیا تھا۔ دوسری جانب اسپین میری ٹائم سروس نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ تارکین وطن کی کشتی سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔ کشتی حادثے میں جاں بحق 44پاکستانیوں میں سے 12نوجوان گجرات کے رہائشی تھے۔ لواحقین کے مطابق 12 نوجوان 4 ماہ قبل یورپ کیلئے روانہ ہوئے تھے، پیسے نہ ملنے پر کشتی کو سمندر میں کھڑا کردیا گیا تھا۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو اسپین کے لیے روانہ ہوئی تھی، انسانی اسمگلروں نے مزید پیسوںکا مطالبہ کیا تھا اور انسانی اسمگلروں نے 8 روز تک کشتی سمندر میں ہی کھڑی رکھی۔ دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے کشتی کو پیش آئے حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رباط میں ہمارے سفارت خانے نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ موریطانیہ سے پاکستانی شہریوں سمیت 80 مسافروں کو لے جانے والی ایک کشتی مراکش کے پورٹ داخلہ کے قریب ڈوب گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانیوں سمیت حادثے میں بچ جانے والے متعدد افراد کو مراکش کے پورٹ داخلہ کے قریب ہی ایک کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں ہلاک شہریوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے مغربی افریقا سے اسپین جانے والی غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے منسوب بیان میں کہا گیا کہ ان کی جانب سے متعلقہ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے جب کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے اسپین یا مراکش میں سرکاری حکام کی جانب سے فی الحال کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔اسپین کشتی حادثے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 افراد کی ہلاکت انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس حادثے پر پوری قوم غم زدہ اور اشک بار ہے۔ پوری قوم متوفین کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ مذمت سے بھی بڑھ کر ایسے واقعات کے مکمل سدباب کے لیے راست کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ نوجوانوں کو سُہانے خواب دِکھاکر اُن کی زندگیوں سے کھلواڑ ایسا گناہ کرنے والے لعنت و ملامت کے مستحق ہونے کے ساتھ سخت ترین سزائوں کے مستحق ہیں۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ملک میں انسانی اسمگلنگ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہ سکے۔ ایسا کریک ڈائون متعارف کروایا جائے کہ جس کے ذریعے انسانی اسمگلروں کا مکمل قلع قمع ہوسکے کہ یہ کسی رورعایت کے مستحق نہیں، بھلے ہی کتنے طاقتور، بااثر، بارسوخ ہوں، انہیں ہر صورت نشانِ عبرت بنایا جائے۔ ان کے سرکاری سہولت کاروں کو چُن چُن کر نشانِ عبرت بنانے کی روش اختیار کی جائے۔ اس قبیح دھندے کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے محض بیانات اور چند رسمی کارروائیوں تک محدود نہ رہا جائے، بلکہ آخری انسانی اسمگلر اور اس کے سہولت کار کے خاتمے تک تسلسل کے ساتھ کارروائیاں ہر صورت جاری رکھی جائیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
پنجاب: آسان کاروبار
فنانس اور کارڈ اسکیم شروع
وطن عزیز میں پچھلے کچھ سال میں معیشت کی صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی بے روزگاری کی شرح بھی اس دوران انتہائی سُرعت سے بڑھتی نظر آئی۔ بے روزگاری کے سیلاب کے باعث بہت سے آشیانے بُری طرح متاثر ہوئے۔ 2018ء کے وسط کے بعد کاروبار دشمن اقدامات کے باعث لوگوں کے برسہا برس سے جمے جمائے چھوٹے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے۔ اوپر سے مہنگائی کا عفریت بڑی تباہیاں الگ مچاتا رہا۔ اس تناظر میں ایسے اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے تھے، جن کی بدولت نہ صرف چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں لوگوں کی مدد اور معاونت ہوسکے، بلکہ روزگار کے نت نئے مواقع بھی کشید کیے جائیں۔ عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرنے والے حکمراں اقدامات ایسے یقینی بناتے ہیں، جن سے عوام کو سہولت اور آسانی مل سکے۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت بڑا قدم اُٹھا کر ’’سی ایم پنجاب آسان کاروبار فنانس’’ اور ’’ آسان کاروبار کارڈ’’ اسکیموں کا اجرا کرتے ہوئے تمام صوبائی حکومتوں پر بازی لے گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ’’ سی ایم پنجاب آسان کاروبار فنانس’’ اور ’’ آسان کاروبار کارڈ’’ اسکیموں کا اجرا کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دونوں اسکیموں کا باضابطہ افتتاح کر دیا۔ انہوں نے آسان کاروبار اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آسان کاروبار فنانس اسکیم کے تحت 10لاکھ سے 3کروڑ روپے تک بلاسود قرضے دئیے جائیں گے۔ ادائیگی بھی آسان ترین اقساط میں ہوگی۔ آسان کاروبار کارڈ کے ذریعے 5سے 10لاکھ روپے تک قرضے دئیے جائیں گے۔ ان اسکیموں سے فائدہ اُٹھانے کے خواہش مند آج ہی آن لائن اپلائی کر سکتے ہیں۔ اسکیموں کے لیے مزید معلومات ہیلپ لائن 1786کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ کیلئے انقلابی اسکیموں کا آغاز کیا ہے۔ یہ اسکیمیں پنجاب اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے ہی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ سی ایم پنجاب آسان کاروبار فنانس اور آسان کاروبار کارڈ پنجاب حکومت کی اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسکیمیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کاروبار شروع کرنا آسان نہ تھا، ہم نے ان اسکیموں کے ذریعے کاروبار کو آسان بنا دیا ہے۔ ’’ سی ایم پنجاب آسان کاروبار فنانس’’ اور ’’آسان کاروبار کارڈ’’ اسکیموں کا افتتاح احسن قدم ہے۔ اس پر پنجاب حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ مریم نواز کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے، کم ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہوسکے گا اور وہ باعزت روزگار کما سکیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر صوبائی حکومتیں بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے اسی قسم کے اقدامات یقینی بنائیں، تاکہ خلق خدا کی بڑی تعداد مستفید ہوسکے اور ان کے دلدر دُور ہوسکیں۔

جواب دیں

Back to top button