بھٹو اور افغان مجاہدین کا تعلق؟

تحریر : روشن لعل
برادر بزرگ، عمر فاروقی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، ہمارے عہد کا سیاسی مجدد، کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھٹو نے مسلم دنیا کو معاشی و عسکری تعاون کی طرف مائل کرنے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے جو کردار ادا کیا ، وہی ان کی پھانسی کا باعث بنا۔ اس کالم پر راقم نے یہ تبصرہ کیا کہ ’’ اگر بھٹو زندہ رہتے تو نام نہاد افغان جہاد میں پاکستان کا مہرے کی طرح استعمال ممکن نہ ہو پاتا‘‘۔ اس تبصرے پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ جس بھٹو نے گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور برہان الدین جیسے مذہبی بنیاد پرست افغانوں کو پاکستان میں پناہ دی، اس بھٹو کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ افغان جہاد میں پاکستان کا استعمال مہرے کی طرح نہ ہونے دیتا۔
ضیا دور میں لڑی گئی افغان جنگ میں نمایاں کردار ادا کرنے والے لوگوں کا نام لے کر بھٹو کی ذات پر جو سوال اٹھایا گیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس جنگ کو افغان جہاد کا نام دیا جاتا ہے اس کے متعلق یہ بات ہر کسی پر عیاں ہو چکی ہے کہ ضیا الحق نے اس کی آڑ میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان کے مفادات کو امریکی مفادات پر قربان کیا۔ ضیا الحق نے پاکستان کو جس گرم جنگ میں جھونکا وہ جنگ اس سرد جنگ کی ضمنی تھی جو ( مرحوم) سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان 1947سے 1989تک جاری رہی۔
ضیا الحق نے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاری سرد جنگ میں امریکہ کا حلیف بن کر اسے سوویت یونین کے خلاف جس قدر بھی پاکستان کا تعاون درکار تھا فراہم کیا مگر بھٹو کے لیے ایسی کوئی بات نہیں سوچی جاسکتی کیونکہ بھٹو نے پاکستان کو غیر وابستہ ملک بنانے کی راہ پر گامزن کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے1954ء میں پاکستان کو ’’ سیٹو‘‘ کر رکن بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں پاکستان کو اس طرح سیٹو سے نکالا کہ کوئی بھی اس پر امریکی بلاک چھوڑ کر سوویت یونین کا حامی ہونے کا الزام عائد نہ کر سکے۔ سیٹو کو خیر آباد کہنے کے بعد بھٹو نے پاکستان کو غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کا ممبر بنانے کے لیے درخواست دی جس کے رکن ممالک کسی بلاک کا حصہ بننے کی بجائے آزاد پالیسیاں اختیار کرنے کے دعویدار تھے ۔ اس سمت میں چلتے ہوئے بھٹو نے مسلم دنیا کا ایسا اتحاد بنانے کی کوششیں شروع کیں جس میں شامل ملک سائنس و ٹیکنالوجی اور معاشی طور پر اس حد تک مستحکم ہو ں کہ انہیں اپنی ضرورتوں کے لیے امریکہ یا سوویت بلاک کی طرف دیکھنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس بھٹو نے پاکستان کو سوویت بلاک کا حصہ بنائے بغیر امریکی بلاک سے باہر نکالا اور جو مسلم دنیا کا ایک الگ اور خود مختار تشخص قائم کرنے کا خواہشمند تھا، اس نے گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود جیسے ان مذہبی شدت پسندوں کو پاکستان میں کیوں پناہ دی جنہیں امریکہ نے بعد ازاں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کے ٹوٹنے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھٹو کو جس پاکستان کی حکومت ملی اس کی مزید شکست ریخت کے خدشات ختم نہیں ہو سکتی تھے۔ یہ خدشات اس لیے تھے کہ اس وقت نہ صرف افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا بلکہ پاکستان کے اندر بھی پختونستان کا نعرہ لگانے والے لوگ موجود تھے۔ ایسی صورتحال میں بھٹو نے افغان حکومت کو للکارنے کی بجائے ، اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے افغانستان کو چنا اور وہاں جا کر ظاہر شاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں پہل کی۔ بھٹو کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے پاکستان کی خاتون اول کی حیثیت سے افغانستان کا سرکاری دورہ کیا۔ ان دوروں کا مقصد یہی تھا کہ ظاہر شاہ کو گفتگو کے ذریعے پاک افغان سرحد تسلیم کرنے اور پختونستان کے مطالبے سے دستبرداری کی طرف مائل کیا جائے۔ بھٹو کی کوششوں سے ظاہر شاہ میں پیدا ہونے والی لچک کا کوئی نتیجہ برآمد ہونے سے پہلے ہی اس کے کزن دائود نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ دائود نے ظاہر شاہ کی حکومت گرانے کے اپنے عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس پر جو الزام لگائے ان میں سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو مستقل پاک افغان سرحد تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔ دائود نے افغان صدر بننے کے بعد نہ صرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ پختونستان کے قیام کے لیے زیادہ سرگرم ہونے کا عندیہ بھی دیا۔ بھٹو نے دائود کو مذاکرات کی پیشکش کی مگر اس نے ان لوگوں کو افغانستان میں پناہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جو صرف بھٹو کی حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستان کے وجود اور وحدت کے بھی اعلانیہ مخالف تھے۔ دائود کے اس عمل کے رد عمل میں پاکستانی ایجنسیاں اس کی حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئیں۔ اسی تسلسل میں گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی کی دائود کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد انہیں 1975 ء میں پاکستان میں پناہ دے دی گئی۔ دائود کو جب یہ نظر آیا کہ اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے مزید حملے بھی ہو سکتی ہیں تو اس نے مذاکرات کے لیے بھٹو کی مسترد کردہ پیشکش قبول کر لی۔ دائود نے پاکستان کے ساتھ جو پراکسی جنگ شروع کی بھٹو اس میں اسے زیر کر چکا تھا مگر اس کے باوجود بھٹو نے مذاکرات کے ذریعے کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی راہ پر چلنے کو ترجیح دی۔ مذاکرات کے بعد ممکنہ سمجھوتے کا خاکہ یہی تھا کہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں نہ مداخلت کریں گی اور نہ ایک دوسرے کے باغیوں کو پناہ دیں گی۔ اس سمجھوتے کے بعد پاکستان اور افغانستان میں پناہ لینے والوں کی حیثیت استعمال شدہ ٹشو سے زیادہ کچھ نہ رہتی۔ یہ سب کچھ ہونا عین ممکن تھا مگر ایسا ہونے سے قبل ضیاالحق نے پہلے بھٹو کی حکومت اور پھر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔گلبدین حکمت یار ، برہان الدین اور احمد شاہ مسعود جیسے جن لوگوں کے استعمال شدہ ٹشو پیپر بننے کے امکانات پیدا ہو چکے تھے، انہیں بعد ازاں ضیاالحق نے اپنا اثاثہ بنا لیا ۔
سطور بالا میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس سے بخوبی یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ضیا نے سرد جنگ کے دور میں عالمی دھڑے بند ی کی سیاست میں امریکی بلاک کا حصہ بن جس طرح سے نام نہاد افغان مجاہدین کے لیے سہولت کاری کی بھٹو نے اس طرح کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ بھٹو نے امریکہ کا پٹھو بن کر گل بدین ، برہان الدین اور احمد شاہ کے لیے سہولت کاری نہیں کی بلکہ پاک افغان تعلقات کے تناظر میں بہترین سٹیٹ کرافٹسمین بن کر مذکورہ تینوں شخصیات کو پاکستان کے سہولت کار اور تحفظ کی ضمانت کے طور پر استعمال کیا۔