عارضی امن

تحریر : محمد مبشر انوار(ریا ض)
سیاست کا کھیل بھی کیا عجب کھیل ہے کہ صاحب اقتدار و اختیار آخری وقت تک اس سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے خواہ وہ اس اقتدار و اختیار پر بھرپور گرفت بھی نہ رکھتا ہو پھر بھی اس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا اظہار ضرور کرے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت اقتدار سے الگ ہونے والے صدر بائیڈن کا ہے کہ گزشتہ تقریبا سولہ ماہ سے مشرق وسطی میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں غزہ کے نہتے و بے بس شہریوں کا قتل عام جاری رہا لیکن بائیڈن انتظامیہ اس پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہی ۔ اس حوالی سے امریکی تاریخ میں صدر بائیڈن کا نام یقینی طور پر ایک ناکام صدر کے طور پر لکھا جائیگا بشرطیکہ مستقبل میں یہ انکشاف نہ ہوا کہ مشرق وسطی میں اس ننگی جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالی میں امریکی منصوبہ بندی نہیں تھی، جس کا بظاہر امکان نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے کہ اس جارحیت کے دوران امریکی رویہ اس امر کی غماضی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ درپردہ اسرائیل کو امریکی شہ حاصل رہی ہے۔ وگرنہ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ اس دوران مسلسل امریکی انتظامیہ اس قتل و غارت گری و انسانی حقوق کی پامالی کو رکوانے کی مسلسل کوششوں میں مصروف رہی لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے امریکہ کی سن کر نہیں دی اور نہ صرف غزہ بلکہ شام، لبنان اور ایران تک کے ساتھ چھیڑ خوانی کی کہ کسی طرح جنگ کا دائرہ پھیلا کر، گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کیا جا سکے۔ درحقیقت اسرائیل کے لئے یہ وقت انتہائی موزوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ جنگ کو غزہ کی حدود سے باہر نکال کر کسی طرح پڑوسیوں کو اس میں ملوث کرے تا کہ امریکہ کے اس جنگ میں اترنے کا جواز پیدا ہو سکے اور اسرائیل کے تحفظ کی آڑ میں امریکہ اسرائیلی خواہش، گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے لئے بروئے کار آ سکے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی شک ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ ہر صورت اسرائیل کی پشت پناہی کے لئے تیار ہے تاہم اس کے میدان میں اترنے کے لئے کم از کم ایسا جواز موجود ہونا چاہئے کہ جس کی آڑ میں وہ امریکہ اپنا چہرہ بھی چھپا سکے گو کہ عالمی بساط پر امریکہ کا چہرہ اپنے دہرے معیار کے باعث ،قابل ستائش ہرگز نہیں رہالیکن ہنوز دنیا پر اس کا کنٹرول بہرطورموجود ہے۔بائیڈن انتظامیہ کی آنیاں جانیاں اور متعلقہ فریقین سے مذاکرات تو مسلسل چلتے رہے لیکن ہر مذاکرات کے ہر دور کے بعد ،یہ اسرائیل ہی تھا جس کی طرف سے انکار کی رٹ جاری رہی اور وہ کسی بھی طور اپنی جارحیت کو ختم کرنے پر تیار نظر نہیں آیا۔ اس دوران اسرائیل نے ایک لاکھ کے قریب نہتے فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور لاکھوں کو شدید زخمی کیا، فلسطینی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی،شام اور ایران کے اندر کارروائیاں کرتے ہوئے، ان کی داخلی خودمختاری کو چیلنج کیا،ان کو انگیخت کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم اس میں پس پردہ مذاکرات کے باعث ایران اپنی تمام تر خواہش کے باوجود،اسرائیل کے خلاف بھرپور طریقے سے بروئے کار نہیں آ سکا اور نہ ہی اسرائیل کو خاطر خواہ نقصان پہنچا سکا۔ جبکہ دوسری طرف شام میں جاری خانہ جنگی اور بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی دیرینہ کوششیں ضرور بر آئی اور بشارلاسد کا نہ صرف تختہ الٹا گیا بلکہ شام سے فرار ہونا اس کا مقدر ٹھہرا،اسرائیلی فوج نے شام کے کچھ حصوں پر قبضہ تو کیا ہے لیکن شام کی نئی حکومت کے ساتھ کیا معاملات طے ہوتے ہیں،اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اس وقت بھی اسرائیلی جارحیت کے جواب میں یمنی حوثی بہرطور میدان عمل میں ہیں اور بحیرہ احمر میں مسلسل امریکی و برطانوی بیڑوں سے نبردآزما ہیں اور دوسری طرف امریکی و برطانوی ڈرون حملے بھی یمن پر جاری ہیں لیکن فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔
امریکہ میں اقتدار کا ہما ایک بار پھر ٹرمپ کے سر سج چکا ہے اور ٹرمپ کا مزاج بائیڈن سے قدرے مختلف اور جارحانہ ہے گو کہ امریکی ترجیحات اور مفادات کے حوالے سے دونوں ایک ہی سکے کے رخ ہیں البتہ طریقہ کار میں واضح فرق ہے۔ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح دنیا کو جنگوں سے نکال کر امن کی طرف لایا جائے لیکن اس میں کسی بھی طور امریکی مفادات کو پس پشت ڈالنے کا روادار وہ بھی نہیں ہے تاہم معاشی لحاظ سے امریکہ کو مضبوط کرنے کے لئے اپنے تجارتی حلیفوں /حریفوں پر مختلف طرز کے ٹیکس لگا کر امریکی خزانہ بھرنا چاہتا ہی نہ کہ دنیا کو جنگوں میں دھکیل کر امریکی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ٹرمپ اپنے حلیفوں کی حفاظت کے عوض ،معاوضہ چاہتا ہے جیسا کہ اس نے اپنے پچھلے دور حکومت میں کیا تھا کہ امریکی کبھی بھی ’’ فری لنچ‘‘ کروانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اس طریقہ کار کے تحت نہ صرف امریکی رعب و دبدبہ برقرار رہتا ہے بلکہ دنیا میں امن بھی کسی حد تک قائم رہتا ہے کہ جو آمدن جنگیں کروا کر ،اسلحہ کی خرید و فروخت سے ہوتی ہے،وہ ٹرمپ طریقہ کار کے مطابق صرف حفاظت کی یقین دہانی کے عوض حاصل کی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی ، مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے ،جس طرح عرب ممالک کو ذہنی طور پر ابراہم اکارڈ کے لئے تیار کیا تھا،وہ سب کے سامنے ہے،جس میں چند عرب ریاستوں نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا تھا بلکہ ان کے سفارتی تعلقات بھی اسرائیل کے ساتھ قائم ہو چکے ہیںالبتہ پاکستان اور سعودی عرب کی ریاستوں نے اس ابراہم اکارڈ کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان اس دوران رجیم چینج جیسے مرحلے سے گذرچکا ہے اور ہنوز سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے،ایسے مرحلے میں کیا امریکہ /ٹرمپ اپنے ریاستی مفادات کے حصول کی خاطر ،پاکستانی سیاسی بھونچال کو نظر اندازکرے گا ؟بالفرض اگر اس کو نظر انداز کرتا ہے تو پاکستان کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا ہوگی؟کیا فارم 47پر قائم حکومت ،امریکی دباؤ کو برداشت کر پائے گی ؟ کیا رجیم چینج کے عوض ابراہم اکارڈ کا حصہ بنتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرے گی؟اس سوال کا جواب اگلے چند مہینوں میں واضح ہو جائیگا اور پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بائیڈن نے جاتے جاتے ایک بار پھر اسرائیل کو جنگ بندی کے لئے فون کیا ہے اور خبریں یہ ہیں کہ امریکہ میں انتقال اقتدار سے قبل مشرق وسطی میں جنگ بندی کے امکانات انتہائی زیادہ ہو چکے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کے علاوہ اس وقت مشرق وسطی میں ٹرمپ انتظامیہ کے نامزد ارکان بھی موجود ہیں اور انہوں نے انتہائی سختی کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کو ٹرمپ کا جنگ بندی کا حکم سنادیا ہے۔ جس پر نیتن یاہوکے رضامند ہونے کی اطلاعات بھی ہیں اور ابتدائی طور پر جو شرائط طے ہوئی ہیں ،ان کے مطابق ،اسرائیلی 34۔36مغویان کے بدلے،1000فلسطینیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان فلسطینیوں میں عمر قید سزا پانے والے فلسطینی بھی ہوں گے جبکہ حماس کی طرف سے ایک خاص الخاص قیدی ’’ مروان برغوتی‘‘ کی رہائی کا مطالبہ مسلسل کیا جارہاہے،جس پر تاحال کوئی مثبت اطلاعات سامنے نہیں آئی،لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ اسرائیل کو حماس کی یہ شرط تسلیم کرنا پڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ،ٹرمپ کے خودساختہ پر امن طریقہ کار کے مطابق کیا خطے میں امن کی ضمانت دی جا سکے گی؟کیا مسلم ریاستیں ،فلسطینیوں کی الگ آزاد ریاست کے قیام کے بغیر،ابراہم اکارڈکو تسلیم کریں گی؟ بالفرض ٹرمپ بازو مروڑ کر مسلم ریاستوں کو ابراہم اکارڈ پر آمادہ کر لیتا ہے ،تو کیا اسر ائیل ،گریٹر اسرائیل کی خواہش سے باز آجائے گا؟کیا فلسطینی معاملے کا تصفیہ منصفانہ ہو گا؟جب تک تنازعات کا فیصلہ مبنی بر انصاف نہیں ہوگا،امن کی توقع کرنا عبث ہو گا البتہ زبردستی کسی مسئلے کا فیصلہ تھوپنے سے ’’ عارضی امن‘‘ ہی ممکن ہو گا،پائیدار امن نہیں۔