ریاست ہے تو سیاست ہے!

دشمنوں اور اُن کے آلہ کاروں نے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا، ہر حربہ آزما لیا، ہر ہتھکنڈا اختیار کرلیا، ملک پر جنگیں مسلط کرکے دیکھ لیں، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے امن و امان کی صورت حال کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تک کر ڈالی، پاکستان اور بیرون ممالک موجود اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناکر پیش کیا، سوشل میڈیا پر جھوٹ کا بازار گرم کیا، پاکستان مخالف پروپیگنڈے کیے، ملک و قوم کی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف شہریوں کے دل و ذہن میں زہر گھولنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، پاکستان کا تاثر دُنیا میں خراب کرنے کے لیے الزامات در الزامات کے سلسلے شروع کیے۔ ان تمام تر مذموم کوششوں کے باوجود دشمن اور اُس کے غلام ہر مرتبہ ناکام ہی رہے، اُن کی ہر سازش اور ریشہ دوانی کو ہماری بہادر افواج نے ناصرف ناکام بنایا، بلکہ بدخواہوں کو منہ توڑ جواب بھی دیے۔ افواج اور پاکستانی عوام کے رشتے میں خلیج ڈالنے کی مذموم کوششوں میں بھی دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی، کیونکہ آج بھی عوام اور فوج کے درمیان خاص رشتہ قائم ہے۔ قوم پاک افواج کے ہر افسر اور سپاہی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان کا ہر غازی و شہید ہمارا فخر ہے۔ شہدا ماتھے کا جھومر ہیں اور ان کے اہل خانہ کی قوم دل سے عزت و احترام کرتی ہے۔ جھوٹا بیانیہ بناکر دشمن اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور یہ جھوٹا بیانیہ بیرون ملک سے مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی خیالات ظاہر کیے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین سے پشاور میں بات چیت کی اور کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اُس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کو دُور نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جارہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عمل داری ہے، صرف انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔ سیاسی قائدین سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ کیا فساد فی الارض اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑا گناہ نہیں ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدانخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں، ہم سب کو بلاتفریق اور تعصب، دہشت گردی کے خلاف یک جا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم متحد ہوکر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہوجائے گی ، انسان خطا کا پتلا ہے، ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اُس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے دوران گفتگو کہا کہ عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر سب جماعتوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہا گیا ایک ایک لفظ سچ اور حق پر مبنی ہے۔ عوام اور فوج کا رشتہ اٹوٹ ہے، کوئی بھی بیرونی و اندرونی دشمن اس میں دراڑ نہیں ڈال سکتا۔ محب وطن عوام پاک افواج کے شانہ بشانہ ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کے خلاف مختلف محاذ گرم کیے جارہے ہیں، پاک افواج ان سے غافل نہیں۔ ہر جوان و افسر دشمن کے کسی بھی ایڈونچر اور سازش کے خلاف چوکس اور تیار کھڑا ہی۔ دشمن اپنے حربوں میں کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ریاست سب سے زیادہ مقدم ہے کہ اس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔آرمی چیف نے بالکل درست فرمایا ریاست ہے تو سیاست ہے۔ کیونکہ ریاست کو سیاست پر فوقیت دینے والوں کے ہاتھ ماضی میں بھی کچھ نہیں آیا تھا اور نہ آئندہ کچھ آئے گا۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔ ملک و قوم کے خلاف جانے والوں کو کوئی اچھے ناموں سے یاد نہیں کرتا۔ سیاسی عدم استحکام کی تمام تر مذموم کوششیں ناکام ٹھہریں گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنی غلطیاں نہ ماننے والے ہمیشہ ہی پچھتائے ہیں، اس لیے قبل اس کے کہ ایسا ہو، غلطیاں تسلیم کرلی جائیں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھا جائے۔ افغانستان کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان استحکام اور ترقی کی منزل کی جانب گامزن ہے۔ فتنۃ الخوارج کی خلاف فیصلہ کُن کارروائیاں جاری ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں قوم کو ان کے خاتمے کی نوید ملیں گی ، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوگا اور پاکستان پہلے بھی اس کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے ،تمام مصائب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جائیں گے۔ اتحاد و اتفاق کی برکت سے تمام مشکلات کو دُور کرنا ممکن ہے۔ بلاشبہ دشمن ناکام ٹھہریں گے اور پاکستان ترقی کی منازل جلد طے کرے گا۔
گھی کی قیمت میں بڑا اضافہ
پچھلے ایک سال کے دوران مسلسل حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی دیکھنے میں آئی۔ گھی، تیل، آٹا، دالوں، چاول پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیاء کی قیمتیں گریں۔ پچھلے 6، 7سال کے دوران عوام کی پہلی بار حقیقی اشک شوئی کا بندوبست ہوا، غریبوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ پھر رفتہ رفتہ گرانی میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہی رہی، لیکن پچھلے کچھ عرصے سے پھر سے مہنگائی کا عفریت زور پکڑتا نظر آرہا ہے اور مختلف اشیاء کی قیمتوں میں بڑے اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ عوام میں اس امر پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور وہ مختلف اندیشوں کا شکار ہورہے ہیں، کیونکہ پچھلے ڈھائی تین ہفتے سے مسلسل مہنگائی کے نشتر اُن پر برس رہے ہیں۔ 2018ء کے وسط کے بعد سے آنے والی حکومت نے اُن کی زندگی کم اجیرن نہیں کی تھی۔ اُنہیں مصائب کی اندھی کھائی میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اُن کے لیے زندگی تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔ پھر سے مہنگائی کا زور پکڑنا تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، گھی کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ اوپن مارکیٹ میں مختلف اقسام کے گھی کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔ درجہ اول کا گھی ایک ماہ میں 60روپے، درجہ دوم کا گھی 30روپے اور درجہ سوم کا گھی 100 روپے فی کلو مہنگا ہوگیا ہے۔ درجہ اوّل گھی کی ہول سیل قیمت 260روپے فی کلو ہے جب کہ پرچون میں یہ 580 روپے فی کلو تک فروخت ہورہا ہے۔ درجہ دوم کا گھی 530روپے فی کلو اور درجہ سوم کا گھی 480روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ گھی قیمتوں میں ایک مہینے میں اتنا بڑا اضافہ یقیناً سنگین صورت حال کی غمازی کرتا ہے۔ اس کی وجوہ کیا ہیں۔ ایسا اچانک کیوں ہونے لگا ہے۔ مختلف اشیاء کی قیمتیں پھر سے تیزی سے بڑھنے لگی ہیں۔ ان تمام اسباب کی ٹھیک طرح سے تحقیق کرکے ان کے حل کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور اُن کی مشکلات کے حل کے لیے تندہی سے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ وفاق و صوبائی حکومتیں عوام کی مشکلات کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ مہنگائی کا پھر سے بوتل سے باہر آنے والا جن ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو حالات مزید سنگین شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ لہٰذا بڑھتے مہنگائی کے زور پر قابو پانے کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔