پاکستان باضابطہ اتحادی نہیں، سینئر عہدیدار وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس کے سینئر عہدیدار جان کربی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ برسوں کے دوران انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن وہ کبھی بھی معاہدے کی ذمہ داریوں کا پابند باضابطہ اتحادی نہیں رہا۔
یہ مختصر پوزیشن پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نازک اور پیچیدہ نوعیت کی نشاندہی کرتی ہے، جو مشترکہ سیکیورٹی خدشات اور مختلف تزویراتی ترجیحات پر مبنی ہیں۔
واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مواصلاتی مشیر جان کربی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت پر کھل کر بات کی اور کسی باضابطہ دفاعی معاہدے کی عدم موجودگی پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی امریکا کا تکنیکی اتحادی نہیں رہا، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا مطلب ہے کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔
اس کے باوجود جان کربی نے خاص طور پر غیر مستحکم افغانستان-پاکستان سرحدی علاقے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی طویل تاریخ پر زور دیا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہم نے کئی سال دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر پاکستان کے ساتھ شراکت داری کی ہے جو اب بھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔
گزشتہ سال اگست میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے امریکا کے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں کو پڑوسی ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے اڈے کے طور پر استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔
اگلے ماہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔
دسمبر میں جاری ہونے والی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام اور علاقائی انتہا پسند نیٹ ورکس سے نمٹنے میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔