Abdul Hanan Raja.Column

بابل کی دعائیں اور سکھی سنسار

عبدالحنان راجہ
اگرچہ ہمارے ہاں گانے بجانے کی پابندی اسی طرح ہی تھی جس طرح دور موجود کی جمہوریت میں دیانت و امانت کی، کہ دیانت دار اہل کار کے گرد بھی ہمہ وقت نہ صرف گھیرا تنگ رہتا ہے بلکہ اسے ٹرانسفر پوسٹنگ کی چکی میں بھی خوب پیسہ جاتا ہے، کہ رائج جمہوریت میں دیانت داری اسی طرح جرم جس طرح ہمارے والد گرامی کی نظر میں گیت سنگیت. ٹیپ ریکارڈ تو تھا مگر اجازت صرف نعت سننے تک کی تھی. بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین کن کٹھن مراحل سے گزرتے ہیں کبھی احساس ہی نہ ہوا اور نہ کیا. ظاہر ہے زمانہ طالب علمی ان فکروں اور بکھیڑوں سے آزاد ہی ہوتا ہے اور لڑکپن اور جوانی کا دور بے فکری کا ہی اچھا لگتا ہے، سو ہم نے بھی والد گرامی کے سر زندگی کا خوب لطف اٹھایا. مار بھی کھانا پڑتی تھی کبھی نماز کی عدم پابندی پر اور وقت کی مناسبت سے جھوٹ پر. ویسے ہم اپنے تئیں قدرت کے عطیہ کردہ اپنے دماغ سے اپنے والدین کو جل دینے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے مگر یہ چالاکی و ہوشیاری اس وقت ناکام اور پیروں تلے زمین ہی نکل جاتی جب والدین سامنے کھڑا کر کے اصل حقیقت بتا رہے ہوتے ہیں. پھر دن میں تارے نظر آنے والا
محاورہ اپنے پہ لاگو نظر آتا تھا. ہمارے ہاں تو والدین کا ادب خوف کی حد تک تھا اور الحمد للہ اس ادب کی برکات اب نظر بھی آتی ہیں مگر اب بے ادب تہذیب کا دور دورہ ہے. اب تعلیم کا زور اور وہ بھی مہنگی درسگاہوں میں مگر بچے ذرا قد نکالتے اور شعور کی آنکھ کھولتے ہیں مگر ادب سے تہی دامن. اس وقت والدین کو اقدار و روایات سے بغاوت کا احساس ہونے لگتا ہے مگر بے سود، کہ چڑیاں چک گئیں کھیت، چڑیوں کا ذکر آیا تو ایک لوک گیت جو عموما سننے کو ملتا تھا
’’ اے چڑیاں دا چنبا اے، بابل آساں اڑ جانا، ساڈی لمبی جدائی اے، بابل آساں اڑ جاناں‘‘
اس گیت کی گہرائی کا کبھی اندازہ کیا نہ ہوا بابل بننے کا سفر ابھی دور تھا. جوان ہوئے دوست احباب و رشتہ داروں کی بیٹیوں کی تقاریب رخصتی میں شرکت معمول. خوب صورت اور اجلے لباس میں دوڑتے، انتظام و انصرام دیکھتے، مہمانوں کا استقبال کرتے چہکتے والدین کے دل کی کیفیات کب جانیں؟ کہ اس طرف توجہ ہی نہ تھی. وہ کہتے ہیں نا کہ زخم خود کو لگے تو تکلیف کا حقیقی احساس ہوتا ہے سو اس وقت ھم درد و تشکر کے ان احساسات سے عاری تھے. زندگی کا سفر چلتے چلاتے اس موڑ پر لے آیا جب بابل کی ایک بیٹی ہمارے ساتھ رخصت ہوئیں. دلہا بنے، سجے سنورے ، دوست احباب کے جلو میں بارات لے کر گھر پہنچے تو ہر سو خوشی کا ساماں کہ دامن تنگ پڑنے لگا. جوانی کے ایام میں بابل کے گھر سے پیا گھر رخصت ہونے والی کے درد کا احساس ہوتا ہی کب ہے. ویسے بھی دلہا ہی کیا دلہا والوں کے قدم بھی زمین پر ٹک ہی نہیں ہوتے. کہ قدرت نے رشتوں کو عجب بندھن میں باندھ رکھا ہے. کہیں کی پلنے والی اور الگ ماحول میں پرورش پانے والیاں انجان راہوں کی ایسی مسافر بنی ہیں کہ انہیں جنم دھرتی ہی بھول بھلا جاتی ہے. مگر ازل سے ایسا ہی چلا ا رہا ہے اسی لیے بیٹی کی پیدائش پر بڑے بزرگ اسے اچھے اور نیک نصیب کی دعا دیتے ہیں. اس ضمن میں شعور کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب آنگن میں چڑیوں کی بہار آتی ہے اور چہچہانے کی آواز. انکے بچپن میں تو ان سے لاڈ، پیار، کھیل کود، ڈرنے، ڈرانے کا سلسلہ ہی رہتا ہے اور پھر پڑھنے پڑھانے کا. ڈانٹ ڈپٹ بھی رہتی ہے اور امتیازی پوزیشن پر تقریب کا. ان کی سالگرہ کا دن منایا جاتا ہے تو کبھی سیر و سیاحت کے لطف. اس فکر سے آزاد کہ ان چڑیوں نے کبھی اڑ بھی جانا ہے. ماضی کے دریچے کھولیں تو ان کے ساتھ بیتے عشرے، دو ہی سہی لمحے ہی لگتے ہیں. ننھی چڑیاں کب اڑان بھرنے کو تیار، خبر ہی نہیں ہوتی. مگر خالق کائنات نے ان کا اڑنا لکھ دیا تو پھر مفر نہیں. پھر جب ذرا آنکھیں بند کر کے ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو سیدہ کائنات کی رخصتی کا منظر سامنے کہ سید العالمین کی آنکھیں انکی رخصتی پر کیسے بھری ہوں گی. جان کائنات کی جان کا بابا کے آنگن سے رخصتی کا لمحہ کتنا مشکل اور دلسوز. سو اگر ایک طرف حکم الٰہی ہے تو دوسری طرف
ہم جیسے بیٹیوں کی رخصتی کو سیدہ کی سنت سمجھ کر دل و جان سے قبول کرتے ہیں. اپنے بچپن سے بچیوں کے لڑکپن تک نہ سمجھ آنے والا گیت ’’ چڑیاں دا چنبا‘‘ اب سمجھ میں ایسا آنے لگا کہ اب تو’’ بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے. میکے کی تجھے نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے ‘‘ بھی گنگنانے کا حوصلہ نہیں پڑتا گو کہ یہ ہر والد کی دعا. مگر پل بھر میں کیسے بدلتے ہیں رشتے، اب تو اپنا بھی بیگانہ لگتا ہے. رشتے بدلتے ہیں، گھر بدلتے ہیں حتی کہ دیار. مگر یہی زندگی ہے، ازل سے یہ جاری اور ابد تک. ربیعہ احمد رخصت ہوئیں تو نمرہ عمیر بھی ایسے اڑیں کہ ہزاروں میل دور آشیانہ بنا لیا۔ جذبات سے بھرے کالم کا اختتام ہر بیٹی کی نذر، نظر لکھنوی کے ان دعائیہ اشعار کے ساتھ
دل میں اک طوفان غم ہے روح میں اک اضطراب
ہے طبیعت میں تکدر بھی نہایت اور بے حساب
آگ سی سینے میں ہے اک ہے جگر میں التہاب
اک تری فرقت سے اف، برپا ہیں کتنے انقلاب
یقینا چڑیاں اڑ جاتی ہیں کہ یہ ہوتی ہی اڑنے کے لیے. پروردگار سب کی ’’ چڑیوں‘‘ کو شاد رکھے اور آباد۔

جواب دیں

Back to top button