گیم تھیوری

تحریر : علیشبا بگٹی
جان نیش، جو ایک جینئس ہیں، ان کے پاس دنیا کا سب سے چھوٹا ڈاکٹریٹ مقالہ ہے۔ جو کہ صرف 26صفحات اور دو حوالہ جات پر مشتمل ہے۔ جبکہ عام پی ایچ ڈی محققین عموماً کم از کم 300صفحات پر مشتمل مقالہ پیش کرتے ہیں، جو کہ 1000صفحات اور سیکڑوں مصدقہ سائنسی حوالہ جات اور ذرائع سے تجاوز کر سکتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کا صرف 26صفحات پر مشتمل ڈاکٹریٹ مقالہ نسل پرست ترین سائنسی یونیورسٹیوں میں سے ایک، پرنسٹن یونیورسٹی، کو جمع کرایا گیا تھا۔ اور پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی سے ریاضی کے علوم اور معاشیات کے ارتقاء کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ان کے ڈاکٹریٹ مقالے’’ غیر کوآپریٹو گیمز‘‘ کے متعلق ہے۔ جان نیش نے 1950ء میں، جب وہ صرف 22سال کے تھے، ’’ گیم تھیوری ان ریاضی‘‘ کے اہم نظریے کو ایجاد کیا۔ اس مقالے ’’ گیمز تھیوری‘‘ کا موضوع ساٹھ کی دہائی سے سماجی علوم میں سب سے زیادہ بااثر نظریات میں سے ایک ہے اور معاشیات، سیاسیات، طرز عمل کی نفسیات اور اسٹریٹجک مطالعات میں بھی ایک اہم تجزیاتی آلہ بن چکا ہے۔ معاشیات کی ترقی میں گیم تھیوری کے عظیم کردار کے بعد، نیش نے 1994ء میں معاشیات کا نوبل انعام جیتا، پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا اور ایم آئی ٹی میں ایک معتبر عہدے پر فائز رہے، وہ اور ان کی اہلیہ ایلیسیا 2015ء میں ایک کار حادثے میں فوت ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کی زندگی کی کہانی پر 2001ء کی فلم بھی بنائی گئی، خاص طور پر اس وقت جب وہ شیزوفرینیا میں مبتلا ہوئے اور کچھ ذہنی امراض پر قابو پا گئے، اور جب وہ اپنے نظریے کو پروان چڑھانے پر کام کر رہے تھے، 2001ء کی مشہور فلم ’’ بیوٹی فل مائنڈ ‘‘ یعنی ایک خوبصورت دماغ کو آسکر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ بین الاقوامی اداکار رسل کرو نے نیش کا کردار ادا کیا۔ فلم ’’ خوبصورت دماغ‘‘ ریاضی کے جینئس جان نیش کی کہانی بیان کرتی ہے اور کیسے ان کی ذہنی بیماری نے انہیں اپنی غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد دی، جبکہ چیزوں کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے، یہ فلم ایک غیر معمولی سائنسدان کی کہانی بھی بیان کرتی ہے جو ذہنی بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے بچ گئے اور حقیقی لیجنڈ بننے سے پہلے لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا ضامن بنے۔
آج ہم اور ہمارے بچے پی ایچ ڈی تو دور کی بات مہینے میں دوچار کالم اور پورے سال میں ایک دو کتاب کا مطالعہ تک نہیں کرتے ہیں۔
گیم تھیوری کیا ہے ؟ آئیں سمجھتے ہیں۔ یعنی ایسی صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنانا جس میں مختلف لوگ اپنے فائدے کے بڑھاوے کے لئے فیصلے کریں اور کسی ایک شخص کے لئے بہترین فیصلہ ایسا ہو جو کسی بھی صورتحال میں کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے قطع نظر اِس سے کہ دوسرے لوگ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ اسے امریکی نوبل انعام یافتہ پروفیسر جان نیش کے نام پر Nash Equilibriumبھی کہا جاتا ہے۔
"گیم تھیوری” مفادات کے کھیل کی سمجھ دیتی ہے۔ سیاست اور کاروبار کے سارے کھیل کے ماڈل گیم تھیوری کی زبان میں بہترین انداز میں بنائے جاتے ہیں۔ جب ایک صاحب دوسرے صاحب سے کہتے ہیں کہ میں نے آ پ کا ’’ حساب ‘‘ لگا لیا ہے۔ تو اس بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے آپ کا behavior patternاور interestکی سمجھ بوجھ لے لی ہے۔ ’’ حساب‘‘ کا ورڈ مختلف جگہ پر مختلف ماڈلنگ فریم ورک دیتا ہے۔ معاملات کے دوران لوگ جو فقرے بول رہے ہوتے ہیں، وہ یوں سمجھ لیں ، اپنے فائدے کی ڈیل کے لئے ماحول بنا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے دکاندار دام زیادہ بتا کر اپنے فائدے کی ڈیل پلان کرتا ہے، یہی حساب ہماری زندگی کے ہر معاملے کا ہے۔ باتیں بھی سنیں، پیٹرن بھی دیکھیں۔ لوگوں کی اقوال وافعال میں فرق نوٹ فرمائیں تو ان کے interestاور gainکو سمجھیں۔ ریاضی کے طالب علم کو پیٹرن identify کرنا آ نا چاہیے، predictionکرنی آ نی چاہیے اور مختلف objectsکا ریلیشن اور ریلیشن کی موٹیویشن سمجھ آ نی چاہیے۔ میتھ کا سبجیکٹ کامن سینس کی extensionہے۔ اس کے لئے جو ٹرمینالوجی چاہیے، اسی کے فریم ورک اور تجزیہ کی بنیاد پر میتھ کے مختلف مضامین کے نام وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ اگر سوچیں تو زندگی ایک گیم تھیوری ہی ہے۔ جس میں سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے فائدے کے لیے گیم کھیل رہے ہیں۔