Column

معاشی ترقی کے دعوے کاغذی جمع تفریق ہے

تحریر : راجہ شاہد رشید
نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے بھی KPKحکومت پر سوال اٹھتے تھے، ہر باشعور شہری معترض تھا کہ علی امین گنڈا پور اور ان کی ساری ٹیم فضول کاموں میں مگن ہے اور کارکردگی بالکل زیرو ہے، ان کی اپنے صوبے پر کوئی توجہ ہی نہیں ہے، صوبائی تعصب، وفاق سے دشمنی، پرتشدد جلوس و ریلیاں، ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ اور بات بات پر احتجاج و انتقام کے علاوہ ان کا تو اور کوئی کام ہی نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت نے 12معاونِ خصوصی مقرر کر کے سب سوالات کے جوابات دے دئیے ہیں، سب مخالفین کے منہ بند کر دئیے ہیں اور ماضی کے تمام تر ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔ یہ 33رکنی کابینہ خزانے پر بوجھ بن گئی ہے۔ KPKکابینہ کا حجم 11 فیصد سے بڑھ کر 23فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ پنجاب کابینہ کا ممبرانِ اسمبلی کے حساب سے حجم 5.6فیصد ہے۔ آئینی ماہرین نے معاونینِ خصوصی کی اس تقرری کو آئین کی 18ویں ترمیم کے منافی قرار دے دیا۔ وزیراعلی کی قیادت میں KPKحکومت کی کابینہ میں 15وزیر ، 5مشیر اور 12خصوصی معاونین شامل ہیں۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے آرٹیکل 130 (6)کے تحت حجم پارلیمنٹ کے کل اراکین کے 11فیصد ہوتا ہے، ممبران کابینہ کی تعداد 15تک ہوتی ہے اور CMپانچ سے زیادہ مشیر و معاونین مقرر کرنے کا مجاز ہی نہیں مگر مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے خصوصی معاونین کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ وزیراعلیٰ جتنے چاہے خصوصی معاونین مقرر کر سکتی ہیں۔ جناب علی امین گنڈا پور سے کبھی بھی میرا رابطہ واسطہ زیادہ نہیں رہا لیکن میں نے یاد نہیں کس کام کے سلسلے میں ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بہت تکریم و احترام سے نوازا اور تین بار کہا کہ راجہ صاحب ! میں تابعدار ہوں، موصوف کے بارے میں میری رائے اچھی ہے لیکن ان کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ کسی طور پہ بھی اچھی نہیں ہیں۔ سنا ہے کہ وہ اپنے صوبے کا اور اپنا تقابل پنجاب اور سی ایم پنجاب سے کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے معاونین و مشیر و منسٹرز کی تنخواہیں اور سہولیات و مراعات بھی حکومت پنجاب کی مانند بلکہ ان سے بھی زیادہ بڑھا کر ایک مثالی ورلڈ ریکارڈ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ چرچا عام ہو، دنیا میں ان کی اچھی ساکھ و شہرت اور نام و مقام ہو۔ وفاقی حکومت نے بھی ایک ریکارڈ بنایا ہے، پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اردو اخبار ( روز نامہ جنگ) کے فرنٹ پیج پر خبر چھپی ہے کہ ’’ پاکستان کی ہفتہ وار مہنگائی 10سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی جو کہ 9جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے سال بہ سال 1.8فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ گزشتہ ہفتے 3.97فیصد تھی اور یہ اکتوبر 2014ء کے بعد مہنگائی کی سب سے کم شرح ہے جو مئی 2023ء میں 48.35فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی میں یہ قابل ذکر تبدیلی آئی ہے‘‘۔ احسن اقبال فرماتے ہیں کہ مہنگائی کو 38فیصد سے 4فیصد پر لانا حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ترسیلات زر میں اضافے پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنے کا نعرہ لگانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا۔ اتحادی حکومت کے تجربہ کار وزیراعظم نے جو بھی کہا ہے وہ ان کے اپنے حساب سے تو درست ہی ہوگا مگر میرے خیال میں سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ نے اس ضمن میں جو کہا ہے وہ زیادہ درست ہے بلکہ صد فیصد درست ہے۔ منصورہ میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ ’’ حکومت کی کوئی کوشش اس وقت تک مثبت نتائج نہیں لائے گی جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ ترسیلات زر میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا، معاشی ترقی کے دعوے کاغذی جمع تفریق ہے‘‘۔ بلا شبہ ان الفاظ ہندسوں کے گورکھ دھندوں اور جعلسازیوں میں ہم بڑے ہی ماہر ہیں اور تجربہ کار بھی، گزشتہ الیکشن میں بھی ہم نے ایک ریکارڈ قائم کیا تھا، جو بری طرح ہار رہے تھے انہیں جعلی جیت سے ہمکنار کر کے، بھلا وہ کیسے۔؟ فارم سینتالیس کی مدد سے اور اپنے ہاتھ اور قلم کی مدد سے 1کو 7یا 9بنا کر ، 3، 5اور 6کو 8بنا کر، جی ہاں جناب! اسی طرح قائم ہوتے ہیں ریکارڈ ہمارے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سولین کے ٹرائل کا فیصلہ ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ آئین و قانون اور عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ فوجی ٹرائل صرف افواج پاکستان تک محدود رہے اور سویلین کے ٹرائل کے لیے سویلین عدالتوں کو ہی اپنی ذمہ داری ادا کرنے دی جائے‘‘۔ قومی سیاسی قیادت مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے سے عدالتی نظام میں ضروری اصلاحات لائے، ملک میں عدالتی نظام کی اصلاح کی بجائے ریاستی طاقت سے جو بھی فیصلہ مسلط ہوا وہ بڑی خرابیوں کا باعث بنا ہے۔ فوجی عدالتوں میں سولین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے۔ مسرت ہلالی نے کہا کہ نو مئی کے مقدمات میں دفعات تو اے ٹی سی کی لگیں پھر فوجی ٹرائل کیسے ہو گیا۔۔؟

جواب دیں

Back to top button