Column

ترقی، شرح نمو، غیر ملکی انوسٹمنٹ

تحریر : سیدہ عنبرین
دسمبر کے مہینے میں معمول سے کچھ زیادہ آئے ڈالرز کو عظیم کامیابی قرار دیتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ عام آدمی اور بالخصوص دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں نے کسی منفی اپیل پر دھیان نہیں دیا، اگر ایسا ہے تو بہت اچھی بات ہے دیکھنا ہے یہ دھیان کی سیڑھیاں کون کب تک چڑھتا ہے، کہاں رکتا ہے اور کیوں رکتا ہے، عظیم کامیابی سے اختلاف کرنے والے کہتے ہیں ہر برس عیدین کے ساتھ ساتھ کرسمس اور نئے سال کے موقع پر غیر ملکی زرمبادلہ میں قدرے اضافہ ہوتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں، دیکھنا ہو گا ان مہینوں کے علاوہ آنے والی رقوم میں کیا کمی آتی ہے یا کیا اضافہ ہوتا ہے۔
نئے سال کے آغاز پر 8جنوری کو سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، بلکہ اسے لیٹ جانا کہنا زیادہ مناسب ہو گا، اس میں کاروباری لوگوں کے 204ارب روپے ڈوب گئے، سٹاک مارکیٹ کا یہ فیشن مہینے میں ایک بار ضرور بدلتا ہے، گزشتہ برس میں سٹاک مارکیٹ قریباً نصف درجن اس سانحے کا شکار ہوئی، لیکن کوئی اسے سانحہ شمار ہی نہیں کرتا، بلکہ بدلتے موسم کے ملبوسات کی طرح کبھی چھوٹی ہوتی، کبھی لمبی ہوتی قمیضوں کی طرح اسے قبول کر لیا جاتا ہے، جو اس کاروبار میں اجڑ جاتے ہیں، کہیں کے نہیں رہتے، ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ گزشتہ 6ماہ کے محصولات میں 386ارب روپے کی کمی ہوئی، یہاں سرکاری پالیسیوں پر عدم اعتماد واضح طور پر نظر آ رہا ہے، لیکن عام آدمی کے اعتماد کی بحالی کا بظاہر کوئی منصوبہ کہیں نظر نہیں آتا۔برسوں سے 3شعبوں میں کام ہوتا نظر آ رہا ہے، یہ شعبے ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ اور رئیل اسٹیٹ تھے، تینوں میں ٹیکسوں کی بھرمار نے تباہی مچا دی، موبائل فون کے سو روپے ری چارج پر کبھی ٹیکس 10فیصد تھا، 5سو روپے کا بیلنس استعمال کرنے والے نے دیکھا کہ ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے تو اس نے اپنا فون کم استعمال کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس کم حاصل ہوا، بینکنگ کے شعبے میں سہولتوں کی بجائے پابندیاں بڑھیں، ہر چیک پر ٹیکس لگایا گیا تو لوگ بینکاری سے دور ہونے لگے، یہاں بھی کم ٹیکس حاصل ہوا، رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں ناقص حکمت عملی اور ٹیکسوں میں اضافے سے دوہرا نقصان ہوا، ایک پلاٹ یا گھر سال میں 2سے 3بار فروخت ہوتا تھا حکومت کو اتنی ہی بار ٹیکس حاصل ہوتا تھا، ٹیکس بڑھایا تو خرید و فروخت میں کمی ہو گئی، اگر ان 3شعبوں میں اصلاحات بحوالہ ٹیکس نہ کی گئیں تو اس کا مزید خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جاری اعداد و شمار سرکاری دعوئوں کا منہ چڑھا رہے ہیں، پہلی سہ ماہی میں ترقی کی شرح 0.92رہی جو کبھی 6فیصد ہوا کرتی تھی، زراعت 1.15فیصد، صنعت منفی 1.03فیصد رہی، اہم فصلوں کی پیداوار، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کی شرح نمو میں ریکارڈ کمی ہوئی، نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے ان اعداد و شمار کی منظوری دی ہے۔ ہر برس یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ عوام کو معاشی استحکام کے ثمرات ملیں گے لیکن عوام کے مقدر میں لکھی سیاہ رات ہر مرتبہ سر پر آ جاتی ہے، ثمرات کسی اور کی جھولی میں جا گرتے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی متعدد موقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ بجلی 50روپے سستی کرنے کی خواہش ہے لیکن 10سے 15روپے فی یونٹ سستی کر سکیں گے۔ یہ ریلیف کب تک ملے گا اس کی کوئی تاریخ ابھی تک نہیں دی گئی، گھریلو صارفین کو 4 روپے فی یونٹ ریلیف کا دعویٰ ہے لیکن ٹی وی فیس کے نام پر جو بھتہ ربع صدی سے وصول کیا جا رہا ہے اسے ختم کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں، یہ ٹیکس دراصل پی ٹی وی نہ دیکھنے کا جرمانہ ہے، مسجدیں، مندر، چرچ سب یہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب میں دو باتیں کی ہیں، جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان کے مطابق زیادہ ٹیکس پاکستان کو چلنے نہیں دیں گے۔ شکر خدا کا 70برس بعد کسی مثبت نتیجے پر تو پہنچے، لیکن ساتھ ہی بتایا گیا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا آئی ایم ایف سے وعدے کرتے وقت یہ سوچ سامنے ہوتی، انہوں نے فرمایا وہ اچھے مشوروں کو خوشدلی سے قبول کریں گے، اگر واقعی ایسا ہے تو سب سے پہلے بنگلہ دیش کا تفصیلی دورہ کریں، مالیاتی مشیروں کو ساتھ لے جائیں اور بنگلہ دیش حکومت کے سربراہ کے سامنے اپنی مشکلات رکھیں، پھر وہ جو حل تجویز کریں، اسے کاروباری ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ کے سامنے نہ رکھیں بلکہ ان پر آنکھیں بند کر کے عمل کریں، سب سے زیادہ اہم یہ ہو گا کہ بنگلہ دیش حکومت کے سربراہ جو لباس پہنے نظر آئیں، جس قسم کی گاڑی استعمال کرتے نظر آئیں، ان کی اور ان کی کابینہ کے ارکان کو مراعات مل رہی ہیں انہیں نوٹ کریں اور سادگی کا کلچر اختیار کرتے ہوئے اپنی حکومت کے کل پرزوں کیلئے اتنی ہی مراعات چھوڑ دیں، باقی تمام منسوخ کر دیں، اس عملی قدم سے جو تبدیلی آئے گی وہ ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کرے گی۔
جس خطے میں ہم بستے ہیں وہاں صرف ہماری ہی معیشت تباہی کی طرف ہر سال دو قدم بڑھاتی ہے، کسی اور کی کیوں نہیں، بنگلہ دیش کی معیشت بہتر ہوئی، بھارت کی معیشت مستحکم ہوتی جا رہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے، یہ کہہ کر دل کو تسلی دینا درست نہیں کہ بھارت کی معیشت ہم سے بہت بڑی ہے، ان کی آبادی، ان کے اخراجات، ان کی ضروریات بھی اسی تناسب سے زیادہ ہیں، پھر انہوں نے وہ قرضوں کے انبار سر پر کیوں جمع نہیں کئے جو ہم نہایت کامیابی سے جمع کر چکے ہیں، اور آنے والے ہر سال میں ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 8ارب ڈالر کے ایک قرضے کی واپسی کی خبر سنائی گئی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کتنے ہزار ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے گئے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں سے پاکستان میں انویسٹمنٹ کی بہت بات ہوتی ہے، جبکہ کئی سو ارب ڈالر ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کو اس جانب راغب نہیں کیا جا سکا، کوئی پاکستانی گزشتہ 3برسوں میں اپنی کوئی بڑی انوسٹمنٹ پاکستان نہیں لایا، یہی حال غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک جھلک دیکھئے، اماراتی کمپنی دماک کے حسین سجوانی کے مطابق ان کی کمپنی امریکہ میں 55کھرب روپے کی سرمایہ کرے گی، یہ سرمایہ کاری ٹیکساس، ایری زونا، اوکلوہاما، لوزیانا اور دیگر امریکی ریاستوں میں ہو گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ داماک گروپ کے سربراہ حسین سجوانی کی اہلیہ کا تعلق پاکستان سے ہے، لیکن وہ کیا بات ہے کہ ایسی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ادھر کا رخ نہیں کرتیں، حالانکہ ہم غیر ملکی کمپنیوں کو معقول منافع کمانے اور اسے پاکستان سے باہر لے جانے کا بھرپور موقع بھی دیتے ہیں، اس کی بڑی وجہ سرخ فیتے کا خاتمہ نہ ہونا اور ہر قدم پر رشوت کی ذلالت بتائی جاتی ہے، ایسے میں کون سی ترقی، کون سا شرح نمو میں اضافہ اور کون سی غیر ملکی انوسٹمنٹ آئے گی۔

جواب دیں

Back to top button