Charter of Ethics
تحریر : صفدر علی حیدری
کسی قوم کے مہذب اور شائستہ ہونے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ وہ قوم کس قدر اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتی ہے۔ اس حوالے سے قوم کے رہنما رول ماڈل ہوا کرتے ہیں، اور ماشاء اللہ ہمیں جو رہنما ملے ہیں اخلاقی حوالے سے ان کا کردار نرم سے نرم الفاظ میں بھی گھٹیا نہیں تو گمراہ کن ضرور ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں، نوے کی دہائی کا ہی جائزہ لیتے ہیں۔ میرے خیال میں انیس سو اٹھاسی سے شروع ہونے والا جمہوری دور اتنا تاریک ہے کہ اسے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین کہنا بجا ہو گا۔ پاکستان کی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنے والے اس دور میں قوم کو غربت ، مہنگائی ، بیروزگاری اور مایوسی کے تحفے ملے۔ قوم کا بال بال قرض میں جکڑا گیا۔ امید کے سارے دیے بجھا کر مایوس کی رات طاری کی گئی ۔ پھر یہ ہوا کہ
بھوک بُھلا دیتی ہے سب کو آداب سبھی
اس پیٹ کے دوزخ کے کرشمات ہیں کیا
کتنی گھڑیاں میں بہائوں گا پسینہ ہر روز
زندگی اب تجھے جھیلنے کے اوقات ہیں کیا
گویا بھوک نے تہذیب کے آثار مٹا دئیے۔ اخلاقی اقدار نے اپنا منہ چھپا لیا۔ بھوک نے قوم کی ہمتوں کو پیٹ تک محدود کر دیا۔ قوم کو پیٹ سے آگے کچھ دکھائی نہ دیا۔ سو پیٹ کو اس لیے بھرے جانے کی کوششیں ہونے لگیں کہ خالی ہے اور پھر اسے خالی اس لیے کیا جائے کہ دوبارہ بھرا جا سکے۔ غربت نے قوم کو بے راہ روی، جہالت اور دہشت گردی کے جال میں پھنسایا۔ پھر جو کچھ ہوا اور ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہیں۔ نئے جمہوری دور میں دو بڑی جماعتوں کو قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ کرسی کی جنگ میں اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ مقابلہ ٹکر کا تھا مگر ن لیگ کو برتری حاصل رہی۔ پی پی پی کی مجبوری یہ تھی کہ اس کی لیڈر ایک خاتون تھی۔ اور پاکستانی معاشرے میں کسی عورت پر تنقید اور تضحیک نسبتاً آسان کام ہے۔ سو محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی کردار کشی کی کوشش میں ہر حد پار کی گئی۔
لڑائی میثاق جمہوریت پر دستخط تک جاری رہی۔ اس کے بعد یہ دشمنی بہناپے میں ایسی بدلی کہ اب دونوں میں فرق کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا۔ دیکھا جائے تو اب ان دونوں کے درمیان بس ناموں کا فرق باقی۔ گویا ایک چھپائو دوسرے کو سامنے لائو۔ ایک تیسری قوت جب آئی تو ان دونوں بڑی پارٹیوں کی اخلاقیات سے متاثر بلکہ متاثرہ تھی۔ سو تو تڑاک اور اوئے توے کا ذکر عام ہوا ۔ لوگوں نے عوام اسٹائل کی اس جماعت کے لوگوں کو بدتمیز کہنا شروع کر دیا۔ اس کام میں دونوں بڑی جماعتوں کے لوگ پیش پیش تھے۔ وہ بھول گئے تھے کہ جو فصل ان دونوں نے آگاہی تھی وہ اسی کا پھل اور تسلسل ہیں۔ ادھر سے سوشل میڈیا کی آمد اور عوام کی اس تک عام رسائی نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اب میڈیا سیل بنائے جانے لگے جن کا واحد مقصد اپنے پارٹی کے لوگوں کو فرشتہ اور مخالف جماعتوں کے فرشتوں کو شیطان ثابت کرنا ٹھہرا۔ ایڈیٹنگ نے فوٹو شاپ نے جھوٹ کو سچ میں اور سچ میں ایسا ملایا کہ ان کے درمیان فرق باقی نہ بچا۔ اب سوچا سمجھا گیا جھوٹ سچ بنا کر اور آدھے سچ کو مکمل سچ بنا کر پیش کرنے کی گمراہ کن روش نے عوام کو شش و پنچ میں مبتلا کر دیا۔
اب خبر کی سچائی مشکوک ہوئی۔ پروپیگنڈے نے آرٹ کی شکل اختیار کر لی۔ حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا جرنلزم ٹھہرا۔ نہ کسی کی بیٹی محفوظ رہی نہ بیٹا۔ اب نوبت بہ ایں جا رسید کہ جس پر غصہ آتا ہے اس کے کردار کشی کر ڈالو ۔ مخالف کی ماں بہن ایک کر دو۔ اور تو اور مخالفین کو دبانے کے لیے ان کی پرائیویٹ ویڈیوز کو وائرل کرنا شروع کر دیا۔ کردار کشی کے کتابیں تک لکھوائی جانے لگیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ایک معروف سیاست دان پریس کانفرنس کرتا ہوا دھاڑیں مارنے لگا کہ اس کی بیوی کے ساتھ بیڈ روم کی ویڈیو اس کی بیٹی کو بھیج دی گئی۔
گویا اخلاقیات کو سلام دنیا پر خاک۔
کچھ دن سے کسی عربی عہدے دار سے مصافحے نے حشر اٹھا رکھا ہے۔ ہر دو جانب سے نامعقولیت پر مبنی تبصرے جاری ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کچھ کہنے میں حیا حائل تھا۔ کئی دن سوچنے کے بعد اس پر لکھنے کو مجبور قلم اٹھایا ۔ اس واقعے پر ایک بات پوری طرح صادق آتی ہے ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘ مجھے اس بات کی نہ حمایت کرنی ہے نہ مخالفت کہ جنہوں نے بویا تھا اب انھیں کاٹنا ہے۔ جو لوگ خود دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں پیش پیش تھے ان کا احتجاج کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔ جو لوگ اس واقعے پر تنقید کر رہے ہیں اپنی باری پر انھیں بھی سب کچھ حوصلے سے سننا ہے کہ ان سلسلوں کے رکنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خاتون کی عزت کرنی چاہیے۔ کسی خاتون کے بارے کچھ کہنے سے پہلے ادب لحاظ اور معاشرتی اقدار کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے مگر کیا باقی جماعتوں کی خواتین قابل عزت نہیں ہیں۔ وہ جن کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ جن کو گھسیٹا گیا۔ جن بزرگ خواتین کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کیا وہ کسی کی ماں بہو بیٹی یا بیوی نہیں تھی۔ کیا ان کا جرم اتنا بڑا کہ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔
خدا لگتی کہئے گا کیا ان لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے جن کے خود کے ہاتھ کردار کشی میں رنگے ہوئے ہوں۔
کیا سلام کرنا کافی نہیں تھا۔
ہمیں تو اس معاملے میں پڑنا ہی نہیں ہے کہ یہ بڑے لوگوں کے معاملات ہیں بلکہ معمولات۔ اس میں کوئی بات کرنا دخل در معقولات شمار ہو گا۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ کاش اس ایک واقعے کو بنیاد بنا کر کوئی ’’ چارٹر آف اتھیکس‘‘ سائن ہو۔ اگر اقتدار کے لیے کوئی چارٹر بن سکتا ہے تو اقدار کے لیے کیوں نہیں۔