CM RizwanColumn

پاکستانی ایٹمی پروگرام کے دشمن

تحریر : سی ایم رضوان
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اسرائیلی اقدامات کی ایک مکمل تاریخ اور سلسلہ ہے، جو اس پروگرام کی ابتدا میں ہی شروع ہو چکا تھا اور تاحال جاری ہے۔
80 ء کی دہائی میں مبینہ طور ہر جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس بات کا انکشاف حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایک دستاویز میں کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 1984ء سے 1985ء تک پولارڈ نے اسلام آباد کے قریب واقع ایک نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی معلومات کے کئی سیٹس اسرائیلی حکام کے حوالے کئے اور یہ آفیشل امریکی ڈاکیومنٹ تھے۔ پولارڈ، اگرچہ امریکی شہری ہے لیکن امریکی بحریہ سے وابستہ رہتے ہوئے اس نے اسرائیل کے لئے جاسوسی کی۔ 1987 ء میں اس کو اسی بنیاد پر عمر قید کی سزا بھی دی گئی لیکن اسے 21نومبر 1987ء میں پے رول پر رہا بھی کر دیا گیا۔ اسی طرح 14دسمبر، 2012ء کو سی آئی اے نے ایک خفیہ دستاویز جاری کی جس کا نام ’ جوناتھن جے پولارڈ جاسوسی کیس، نقصان کا اندازہ‘ ہے اور یہ رپورٹ 30اکتوبر 1987ء کو تیار کی گئی تھی۔ یہ دستاویز جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سکیورٹی آرکائیو پراجیکٹ کی اپیل پر جاری کی گئی ہے جس میں پولارڈ کے جاسوسی مشن پر معلومات موجود ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد امریکہ میں خفیہ اور در پردہ معلومات کو کم سے کم کر کے اس کی لوگوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ پولارڈ کی خلاف عدالتی کارروائی میں سابق امریکی وزیرِ دفاع کیسپر وائنبرگر نے بتایا تھا کہ پولارڈ کو جو خفیہ دستاویز دی گئیں ان سے چھ فٹ چوڑا، اتنے ہی فٹ لمبا اور دس فٹ اونچا کمرہ بھرا جا سکتا ہے۔ سی آئی اے کی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پولارڈ کو عرب ( اور پاکستانی) نیوکلیئر پروگرام، عرب ممالک کی جانب سے باہر سے خریدے گئے ہتھیاروں اور کیمیائی اسلحے، سوویت جنگی ہوائی جہاز، سوویت ایئر ڈیفنس سسٹم، فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائلوں اور عرب افواج کی تیاریوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔ دستاویز میں بڑا حصہ وہاں سے سنسر کیا گیا ہے جس میں پولارڈ کی جاسوسی کے اسرائیلی فائدے پر بحث کی گئی ہے۔ صفحہ 58 پر لکھا ہے کہ پولارڈ نے اسرائیل کے لئے مٹیریل بھی چُرایا اور کافی فوائد حاصل کئے۔ پھر صفحہ 59پر لکھا ہے کہ پولارڈ نے تیونس میں پی ایل او ہیڈ کوارٹر سے متعلق معلومات بھی دیں۔ ساتھ ہی تیونس اور لیبیا کے ایئر ڈیفنس کے بارے میں معلومات فراہم کی اور اسلام آباد کے قریب پاکستان کے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ پر بھی دستاویز فراہم کی تھیں۔ یاد رہے کہ اکتوبر 1985ء میں اسرائیل نے انہی معلومات کی بنا پر تیونس میں واقع پی ایل او کے صدر دفاتر پر حملہ کیا تھا۔ آرکائیوز کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی دستاویز میں تقریباً دس جگہ پاکستان اور اس کی ایٹمی تنصیبات کا ذکر ہے جسے مٹایا گیا ہے۔ بعض ڈاکیومینٹس میں افغان جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔ اگرچہ سی آئی اے کی دستاویزات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کتنا کچھ جانتے تھے لیکن اسی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ دوسری دستاویز میں ایسا نہیں ہے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ 1980 ء کے عشرے میں امریکی یہ جانتے تھے کہ پاکستان ایٹمی میدان میں خاصی پیش رفت کر رہا ہے لیکن افغانستان میں جاری سوویت جنگ میں اسلام آباد کی حمایت کے بدلے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پھر جولائی 1982ء میں ریگن حکومت نے سی آئی اے کے سابق نائب سربراہ جنرل ورنن والٹرز کو جنرل ضیاء الحق کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں ایٹمی پروگرام میں پاکستانی کی خفیہ اور تیز رفتار پیش رفت پر واشنگٹن کی تشویش سے آگاہ کیا جا سکے۔ پھر 1986ء میں آرمز کنٹرول اور ڈس آرمامنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر، کینتھ ایڈلمان نے بھی وائٹ ہائوس کو خبردار کیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے۔ ایک دستاویز سے تو یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ریگن انتظامیہ یہاں تک چاہتی تھی کہ پاکستان اپنے خفیہ راز انہیں نہ بتائے کیونکہ اس صورت میں سچ سامنے آ جانے پر کانگریس کے سامنے یہ ثابت کرنا مشکل ہو جاتا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام پر کام نہیں کر رہا۔ اس سے افغان مزاحمت کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ تھا۔ ریکارڈ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد اور بھروسے کی کمی تھی اور آج بھی ہے۔1981ء کے موسمِ سرما میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انٹیلی جنس کی بنا پر اندازہ لگایا کہ اس وقت پاکستان ایک کار آمد بم بنانے کے قابل ہو چکا ہے، تاہم کہوٹہ پلانٹ سے حاصل شدہ افزودہ ( اینرچڈ) یورینیم سے 1983ء سے قبل ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بارے میں وزیرِ خارجہ جارج شلٹز نے صدر ریگن کو خبردار بھی کیا تھا۔ اس کے بعد 1987ء میں سینئر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ آفیشلز نے لکھا کہ جنرل ضیا ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنی حد سے تجاوز کر رہے ہیں لیکن صدر جمی کارٹر کے دنوں میں امریکہ نے دوسری اقوام پر زبردست دبائو ڈالا کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طرح حساس ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم نہ کریں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف تاخیر سے دوچار کر سکتے ہیں بلکہ اسے پیچھے بھی لی جایا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں 1987ء میں امریکہ میں کسٹم حکام نے ایک پاکستانی ارشد پرویز کو گرفتار کیا جو کہوٹہ پلانٹ کے لئے خاص قسم کا فولاد اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس موقع پر بھی ریگن انتظامیہ نے کہا کہ پاکستان ( اب بھی) ایٹمی ہتھیار نہیں رکھتا۔ ان دستاویزات و تفصیلات کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسرائیل جو کہ اب اپنا گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی جاری کر چکا ہے وہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لئے فتنہ الخوارج جیسے کسی دہشت گرد گروہ کو فنڈنگ کے ذریعے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایک خبر ہے کہ خیر پختونخوا سے اٹامک انرجی کمیشن کے 17ملازمین کے اغوا کی کالعدم ٹی ٹی پی نے ذمے داری قبول کر لی ہے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا خضدار میں بازار پر دھاوا، پولیس اسٹیشن سمیت سرکاری عمارتیں جلا دیں اور بینک بھی لوٹ لیا۔ تاہم لکی مروت سے اٹامک انرجی کمیشن کے اغوا ہونے والے 17میں سے 8ملازمین کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے ان افراد کے اغوا کی ذمے داری قبول کی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق جمعرات کی صبح آٹھ بجے لکی مروت سے ایک گاڑی اٹامک انرجی کمیشن آف پاکستان کے اہلکاروں کو لے کر قبول خیل کی طرف جا رہی تھی۔ وانڈا پائندہ خان کے قریب کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں نے اس گاڑی سے 17ورکرز کو اتار لیا اور اپنے ساتھ لے گئے اور گاڑی کو نذرِ آتش کر دیا۔ وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والا اٹامک انرجی کمیشن پاکستان میں فوجی اور سول مقاصد کے لئے جوہری ٹیکنالوجی پر ریسرچ کا ادارہ ہے چند روز قبل ٹی ٹی پی نے دھمکی دی تھی کہ افواجِ پاکستان سے منسلک اداروں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ اغوا کار ابتدائی طور پر اغوا کیے جانے والے افراد کو وانڈا پائندہ خان والے جنگل کی طرف لے گئے۔ اغوا کیے جانے والوں میں سکیورٹی فورسز کے ریٹائرڈ اہلکار بھی شامل ہیں۔ وائس آف امریکا کے مطابق سرکاری طور پر اس واقعے کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اس سے متعلق ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے۔ مغویوں نے حکومت سے شدت پسندوں کے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے، تاہم مغویوں نے اس ویڈیو پیغام میں اغوا کاروں کے مطالبات کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ ٹی ٹی پی نے اٹامک انرجی کمیشن کے ورکرز کے قومی شناختی کارڈز اور سروس کارڈز بھی ذرائع ابلاغ کو جاری کر دئیے ہیں۔ لکی مروت میں پولیس حکام نے اغوا کیے جانے والوں میں جمعرات کی شام 8اہلکاروں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق بازیاب کروائے گئے 8افراد میں سے تین افراد زخمی ہیں جنہیں سول ہسپتال لکی مروت منتقل کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے ریجنل پولیس افسر ( آر پی او) بنوں عمران شاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے 8ملازمین کو بازیاب کروانے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیگر ملازمین کی بازیابی کے لئے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے، فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور باقی 9افراد کو بھی خیریت سے بازیاب کروا لیا جائے گا، جس علاقے میں ان افراد کو اغوا کیا گیا ہے وہاں یورینیم کی کان کنی ہوتی ہے اور یہ منصوبہ اٹامک انرجی کمیشن کے تحت کام کرتا ہے۔ مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ملازمین کو لکی مروت سے میانوالی جانے والے راستے سے اغوا کیا گیا۔ یہ علاقہ صوبہ پنجاب کے علاقے عیسیٰ خیل کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ لکی مروت میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اہلکاروں کے اغوا سے چند گھنٹے قبل انسدادِ دہشت گردی پولیس ( سی ٹی ڈی) نے ضلع لکی مروت گمبیلا میں کالعدم تنظیم کے شدت پسندوں کے خلاف مخبروں کی اطلاع پر کارروائی کر کے تین شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لکی مروت گمبیلا میں کالعدم تحریکِ طالبان کے شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر سی ٹی ڈی نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا۔ ذرائع کے مطابق شدت پسندوں نے پولیس کو دیکھتے ہی فائرنگ کر دی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں تین شدت پسند ہلاک ہو گئے۔ خیال رہے کہ لکی مروت میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے حالات کشیدہ ہیں اور یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لکی مروت کے علاقے غزنی خیل میں دو روز پہلے نامعلوم افراد نے دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا جس کے بعد مقامی امن کمیٹی اور پولیس کے اہلکاروں نے مسلح حملہ آوروں کا پیچھا کیا اور جھڑپ میں ایک مسلح شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ لکی مروت کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں جن کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی رہی ہیں۔ یہاں پر ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button