جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( پندرہواں حصہ)
تحریر : امتیاز عاصی
اگرچہ جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے قیدیوں کو ایک اچھا شہری بنانے کے لئے صوبے کی چوالیس جیلوں میں کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے اس مقصد کے لئے بیرکس میں لائبریریاں قائم کی جارہی ہیں تاکہ پڑھے لکھے قیدی کتابوں سے استفادہ کر سکیں۔ گزشتہ چار عشروں کی جیلوں کی تاریخ دیکھیں تو آج کل قیدیوں کو جو سہولتیں میسر ہیں پرانے وقتوں میں دستیاب نہیں تھیں۔ پی سی او کے ساتھ اب ویڈیو کال کی سہولت دی جارہی ہے۔ پرانے وقتوں میں سزائے موت کے قیدیوں کے لئے طہارت خانے نہیں ہوا کرتے تھے اب تو سزائے موت کے سیلوں میں فلش سسٹم کی سہولت میسر ہے۔ گویا عہد حاضر میں ماضی کے برعکس قیدیوں کے لئے ہوشربا سہولتیں ہیں جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ افسوناک پہلو یہ ہے جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی حکومت خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکی لہذا ہم اپنے کالم کی وساطت سے چیف جسٹس آف پاکستان کی قائم کردہ جیل اصلاحاتی کمیٹی سے کہیں گے وہ جیلوں میں ہونے والی کرپشن کے خاتمے کے لئے ان امور کی طرف خصوصی توجہ دیں تاکہ قیدیوں اور ان کے لواحقین کو دوہرے عذاب سے ہمیشہ کے لئے نجات مل سکے۔ اس مقصد کے لئے پہلے اقدام کے طور پر ایسے سپرنٹنڈنٹس متعین کئے جائیں ان کا سروس ریکارڈ صاف ستھرا ہو اور ملازمت کے دوران ان کے خلاف کرپشن کی کوئی شکایت نہ ہو۔ جیلوں میں اگر سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس راست باز ہوں تو کوئی ملازم کسی قیدی سے مبینہ طورپر رشوت لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یاد ہے مرحوم عبدالستار عاجز جب جیل سپرنٹنڈنٹ تھے جیلوں کے ملازمین قیدیوں سے چائے کا کپ پینے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے انہیں اس بات کو خوف طاری رہتا تھا کہیں سپرنٹنڈنٹ کو علم نہ ہو جائے اور ان کی ملازمت نہ چلی جائے۔ اب تو اندھیر نگری چوپٹ راج والی بات ہے۔ جیلوں میں داخلے کے وقت ہونے والی تلاشی، ملاقاتی شیڈ، اندرون جیل سامان کی تلاشی، قیدیوں کاپی پی اکائونٹ، جیل چکر، فیکٹری، لنگر خانے، بیرکس، منشیات بیرکس، قصوری بلاک، ڈیوٹی بک غرضیکہ جیلوں کے ہر کونے میں مبینہ طور پر کرپشن
ہوتی ہے۔ دوسرے اقدام کے طور پر جب ایک ہی مقدمہ میں دو چار ملزمان آجائیں تو انہیں ایک ہی بیرکس میں رکھا جائے۔ ہوتا یوں ہے ایک مقدمہ میں نئے آنے والوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا جاتا ہے جس کے بعد وہ ایک بیرک میں رہنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اس مقصد کے لئے کم از کم پانچ سے دس ہزار روپے فی کس نذرانہ ادا کرنا پڑتا ہے لہذا اس طریقہ سے کرپشن کو ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو ہدایات جاری کر دی جائیں وہ ایک مقدمہ کے ملوث تمام ملزمان کو ایک بیرک میں رکھیں تو کم از کم کرپشن کا ایک دروازہ ختم ہو سکتا ہے۔
جیلوں کے ہیڈ وارڈرز اور وارڈرز کے تبادلوں کے لئے کوئی واضح پالیسی ہونی چاہیے جس کے بعد مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے کسی قیدی کو واپس اسی جیل میں نہ لگایا جائے جہاں سے اسے تبدیل کیا گیا ہو۔ جیلوں میں ایک سے زیادہ سیل ہوتے ہیں جہاں حفاظتی اور دہشت گردی میں ملوث ملزمان کو رکھا جاتا ہے بعض جیلوں میں سیلوں میں سب اچھا کرنے والوں کو رکھ کر انہیں بی کلاس کی سہولتیں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ سیلوں میں رکھے گئے قیدی عام لباس پہن لیتے ہیں جب کبھی دورہ آنا ہو انہیں قبل از وقت بتا دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ پرائیویٹ کپڑے اور غیرقانونی اشیاء ادھر ادھر کر دیتے ہیں۔ معمول کے مطابق جیلوں میں اتوار کے روز تلاشی ہوتی ہے جس کا قیدیوں کو پہلے سے علم ہوتا ہے لہذا وہ غیرقانونی چیزیں موبائل، استری، جوسر، کانچ اور اسٹیل کے برتن وغیرہ چھپا لیتے ہیں۔ آئی جی کے سالانہ دورہ سے دو تین روز پہلے تمام غیر قانونی اشیاء کو بیرکس او ر سیلوں کی چھتوں پر رکھ دیا جاتا ہے حالانکہ آئی جی صاحبان کو ان تمام باتوں کو علم ہوتا ہے کیونکہ وہ سپرنٹنڈنٹس کے عہدہ سے ترقی کرکے آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے تک پہنچے ہوتے ہیں۔ غیر قانونی اشیاء جیلوں میں پہنچانے والے ملازمین ہوتے ہیں۔ گو جیلوں میں سامان کی سکرننگ کے انتظامات ہوتے ہیں سکرننگ مشین پر تعینات عملہ بیرکس انچارج سے سا ز باز کرکے غیر قانونی چیزوں کو اندر بھجوا دیتے ہیں ۔ دراصل جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سزا و جزا کے سلسلے میں جرائم میں ملوث ملازمین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ کسی کی سالانہ ترقی روک لی جائے تو کرپشن کرنے والے ملازمین کو ایسی سزائوں کی پروا نہیں ہوتی ۔جیلوں میں کرپشن کا ایک آسان طریقہ یہ ہوتا ہے مالدار قیدیوں کو سہولتوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے بعض جیلوں کے افسر سیلوں ، بیرکس اور سزائے موت کے سیلوں میں قیدیوں کو بہتر کلاس ( بی) کی سہولتیں فراہم دیتے ہیں۔ چنانچہ جب تک ان باتوں کی شکایت نہ ہو کوئی پوچھ نہیں سکتا جیلوں کے اندر کیا ہور رہا ہے۔ اگر ہم کوئی بات غلط تحریر کریں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کا کہر ہم پر نازل ہو۔ جیلوں میں مبینہ طور پر کرپشن کی رقم جمع ہوتی ہے تنہا کوئی افسر نہیں کر سکتا بلکہ کرپشن سے جمع ہونے والی رقم باقاعدہ اوپر تک جاتی ہے۔ ہم ایسے افسران کے نام یا عہدہ تو نہیں لکھیں گے پردہ دار بہت ضروری ہے۔ بعض سینٹرل جیلوں میں ماہانہ پندرہ سے بیس لاکھ روپے جمع ہوتے ہیں جنہیں باقاعدہ طور پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں غیر قانونی اشیاء کوئی غیبی مخلوق تو نہیں لاتی جیل ملازمین لانے والے ہوتے ہیں لہذا کرپشن کے خاتمے کے لئے احتساب کا عمل بہت ضروری ہے۔ جیلوں میں اچانک رات کے اوقات میں چھاپے مارے جائیں تو سب کچھ عیاں ہو سکتا ہے پر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ جیلوں میں جانچ پڑتال کا یہ عالم ہے کوئی افسر صوبائی دارالحکومت سے چلے تو جیلوں میں پہلے سے اطلاع ہوجاتی ہے جس کے بعد تمام غیر قانونی اشیاء کو چھپا دیا جاتا ہے۔ ایک جیل سپرنٹنڈنٹ کے بیٹے سے جو نئی گاڑیوں کا کاروبار کرتا تھا کوئی چار کروڑ روپے لے گیا جس کے بعد ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جیل سپرنٹنڈنٹ مارا مارا پھر رہا ہے تو اتنی بڑی رقم اس کی پنشن سے تو نہیں ملی ہوگی؟ ( جاری)۔