ڈنکی اور ڈنکر
تحریر : فیاض ملک
یونان کے ساحل پر خوشحالی اور آزادی کے سراب کے پیچھے جانیوالے ڈنکی لگاتے پاکستانی شہری صرف اپنی جانیں ہی اس سفر میں دائو پر نہیں لگاتے بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی محنت کی جمع پونجی ایجنٹوں پر لٹا بیٹھتے ہیں، غربت کی زندگی، بے روزگاری اور مفلسی سے چھٹکارے کیلئے یورپی سرزمین پر ایک نئی زندگی شروع کرنے کے خواب، یہی کہا نی ہے ان مزید درجنوں پاکستانیوں کی، جو حال ہی میں بحیرہ روم کی بے رحم سمندری لہروں کی نذر ہو گئے، حالیہ برسوں میں پاکستان سے انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کے نتیجے میں سب سے بڑا حادثہ 14جون 2023ء کو بہتر مستقبل کے خواب سجائے یورپ کے سفر پر روانہ بحری کشتی نما جہاز جس کا نام اینڈریانا کو یونان کے ساحل کے نزدیک ہی پیش آیا تھا، جس میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی اسمگلنگ کی جا رہی تھی، جس کے باعث یہ کشتی پیلوس، میسینیا، یونان کے ساحل سے دور بحیرہ ایونی میں ڈوب گئی تھی، بحیرہِ روم میں کشتی الٹنے کے واقعہ کو تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دیا گیا تھا، اس افسوسناک واقعہ کے بعد انسانی اسمگلروں کیخلاف حکومتی کارروائیوں کے بلند و بانگ دعوئوں کو دیکھتے ہوئے توقع کی گئی تھی کہ شاید کہ اب ہلاکتوں یہ سلسلہ رک جائے گا، لیکن گزشتہ دنوں میں یکے بعد دیگرے یونان میں ہی غیر قانونی تارکین وطن کو لیکر جانیوالی تین کشتیوں کو پیش آنیوالے حادثات نے ایک بار پھر کئی پاکستانیوں کی ہلاکتوں کے پرانے زخم تازہ کر دئیے ہیں، واضح رہے کہ ایسے افسوسناک واقعات نہ تو پہلی مرتبہ پیش آئے ہے اور نہ آخری بار، اگر ماضی کو دیکھا جائے تو ایسے کئی واقعات منظر عام پہ آچکے ہیں، جن کے رونما ہونے کے بعد اس وقت کی حکومتوں کے، کرتا دھرتائوں، کی جانب سے انسانی اسمگلروں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائون اور انہیں نشان عبرت بنانے کے بلند و بانگ دعوے سامنے آئیں مگر ہائے ری قسمت دعوے تو پھر دعوے ہی ہوتے ہیں، جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور بہر حال یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کئی سانحے ایسے بھی ہیں جو کبھی منظر عام پہ ہی نہیں آئے۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ یہ ڈنکی کیا ہے، آئیں پہلے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، تارکینِ وطن کو اس غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں تک لیجانے والے ڈنکر کہلاتے ہیں، بلوچستان، ایران ، ترکی کے راستے پیدل یا کنٹینروں میں بند ہو کر یونان جانے کو ڈنکی کہتے ہیں، لفظ ڈنکی سے شاید بہت سارے لوگ واقف نہ ہوں لیکن پنجاب کے علاقے گجرات، گوجرانوالہ ،منڈی بہائوالدین ، سیالکوٹ اور اطراف کے اضلاع کے لوگ اس لفظ اور اس کے مطلب کو بخوبی جانتے ہوں گے، اس کی تلخ حقیقت سے وہی لوگ واقف ہیں جو آدھے راستے سے واپس آ جاتے ہیں یا بہت ہی زیادہ خوش قسمتی سے یونان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، آگے پھر کنٹینر یا چھوٹی گاڑیوں میں بیٹھا کر اوپر سامان لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
اگر پھر بھی زندگی باقی رہی تو ایتھنز پہنچ پاتے ہیں ، اکثر پاکستانی تارکین وطن پیدل راستوں پر چل کر بھی یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، یہ راستے بھی انتہائی خطرناک ہوتے ہیں اور اکثر ان تارکین وطن کو بھی جان کے خطرات لاحق رہتے ہیں، یہ ہے ڈنکی کا پورا عمل۔ اب اس سارے سفر میں موت کا چانس 99فیصد اور زندگی کا ایک فیصد ہے ، اس سارے عمل کا جائزہ لیا جائے تو سچ یہی ہے کہ تارکینِ وطن کو یورپی ممالک میں بہتر زندگی کے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ان کا حقیقت میں کوئی عنصر نہیں ہے، غیر قانونی طور پر سمندری راستے یورپ کا سفر کرنیوالے تارکین وطن کو انسانی اسمگلر اکثر ناقص کشتیوں میں بھر کر لیجانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اکثر حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں، ڈنکی لگانے والی پاکستانیوں کی المناک موت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی معاشرے میں دولت کی غلط تقسیم اور عدل اجتماعی کے ناکارہ و پیچیدہ نظام کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے، حالیہ قبرسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ یونان، اٹلی یا دیگر یورپی ممالک کی جانب سے حادثات کے بعد تارکینِ وطن کے ریسکیو میں ناکامی عام ہوتی جارہی ہے، بار بار ایسے اندوہناک واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں جن میں تارکینِ وطن بہتر زندگی کی خواہش میں خطرات مول لیکر یورپی ممالک جاتے ہیں، دیکھا جائے تو بیرون ملک جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان بلکہ مقابلے کی فضا کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں خاص طور پر معاشرتی سٹیٹس میں واضح تفریق، تعلیم کی کمی اور روزگار کی عدم دستیابی تین بڑی وجوہات ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ لوگ کیسے اتنے خطرناک سفر کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو اس کے دو پہلو ہیں، ایک بیروزگاری یا روزگار کے کم مواقع اور دوسرے کا ذمہ دار ہمارے والدین اور مجموعی معاشرہ ہے۔ والدین ہر وقت نکمے یا نکھٹو ہونے کا طعنہ دے کر بچوں کو بدظن کرتے رہتے ہیں، وہ انکی حوصلہ افزائی یا کام کاج میں لگانے کے بجائے ان کو ہر وقت ملک سے باہر جانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا عزیز و اقارب بھی پوچھتے رہتے ہیں کہ کب باہر جا رہے ہو، باہر جائو گے یا یہیں دھکے کھاتے رہو گے۔ اس طرح نوجوانوں کو خودکشی جیسے سفر پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں ایسی مربوط پالیسی بنانی چاہیے جو لوگوں کو اس طرح کے خطرناک سفر سے روکے اور ان کو بتائے کہ یورپی ممالک میں ان کیلئے حقیقی مواقع کون سے ہیں ،تاکہ لوگوں کو نہ صرف ان کشتیوں پر سفر کرنے کے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا جاسکے بلکہ یورپ پہنچنے پر جو زندگی ان کی منتظر ہوگی اس حوالے سے بھی خبردار کیا جائے، مستقبل کی ممکنہ صورتحال یورپ کو پریشان کر رہی ہے کیونکہ اتنی بڑی آبادی کو آمدنی کے ذرائع مہیا کرنا ان کیلئے انتہائی مشکل ہے۔ ثقافتی قوتیں، جیسے بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور زینوفوبیا، ان پابندی والی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک کو لیبر فورس فراہم کرنیوالے ملک کی حیثیت سے ملازمت کے رجحانات کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی لیبر پالیسی تیار کی جائے جس سے درمیانے اور اعلیٰ درجے کی ملازمتیں پیدا ہوں اور گھر بیٹھے کام کرنے کے مواقع پاکستانیوں کو بھی مل سکیں۔ دوسری جانب ان افسوسناک واقعات کے بعد ایک بار پھر حکومتی کمیٹیوں اور ایف آئی اے کی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہیں ، مختلف مقامات پر چھاپوں کے دوران درجنوں انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرلیا، مزید گرفتاریوں کیلئے بھی کوششیں جاری و ساری ہیں، اب اس تازہ حادثے کے بعد بھی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کیلئے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں وزیر اعظم نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں ایسے تمام واقعات کی رپورٹ طلب کی جن میں پاکستانی شہری ہلاک ہوئے یا شامل تھے۔ وزیر اعظم نے ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث ایجنٹوں کیخلاف کارروائی میں سستی برتنے والے سرکاری افسران کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت بھی کی، وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کا بار بار رونما ہونا پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ بہرحال یہ انتہائی افسوسناک واقعہ تھا جس کی وجہ سے کئی مائوں کی گود اجڑی تھی، یونان کشتی حادثہ کے اصل ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا، سہانے خواب دکھا کر غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کے کاروبار میں ملوث عناصر کی اصل جگہ جیل ہے، کیونکہ انسانی سمگلنگ جیسے گھنائونے کاروبار میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، اب سوال یہ بھی ہے کہ ان تمام کارروائیوں کے باوجود سوشل میڈیا پر انسانی اسمگلرز کا مکروہ دھندا چل رہا ہے، سنہرے مستقبل کا خواب نوجوانوں کو بیچنے کیلئے سوشل میڈیا ڈنکی مافیا کاسب سے موثر ہتھیار ہے، فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک کے ذریعے باقاعدہ اشتہار دیکر لوگوں کو جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرم اور ٹک ٹاک سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر دھڑا دھڑ پوسٹیں جاری ہیں، اتنے بڑے سانحے کے باوجود انسانی اسمگلروں کا دھڑلے سے سوشل میڈیا پر سرگرمیاں جاری رکھنا حکومتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔