Column

مگر اخبار کی یہ سرخیاں کچھ اور کہتی ہیں

تحریر :صفدر علی حیدری
مشتاق احمد یوسفی مرحوم نے کہیں لکھا ہے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں، ایک جھوٹ ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد و شمار۔ اب اس میں ایک اور کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور وہ ہے من پسند اخبار کی سرخیاں۔ جرنلزم کو اس لیے صحافت کہتے ہوئے اور خبر نگار کو صحافی لکھتے ہوئے دل کانپتا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے سب بڑے اخبار کی شہ سرخی پڑھ کر کوئی حیرت نہیں ، ہاں دکھ ضرور ہوا ۔ خبر ملاحظ ہو’’ مہنگائی سات سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ‘‘۔ اب خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ واقعی خبر ہے یا خواہش کو خبر کا درجہ دیا گیا ہے۔
اب اس خبر پر کسی دل جلے کا تبصرہ دیکھیے، پٹرول 149روپے سے کم ہو کر 252روپے ہو گیا ہے، بجلی کی قیمت 16روپے یونٹ سے کم ہو کر 68روپے ہو گئی ہے، ڈالر 170روپے سے کم ہو کر 278روپے کا ہو گیا ہے ۔۔۔۔
بی بی سی کی خبر ملاحظہ ہو ’’ پاکستان میں خورونوش کی بڑھتی قیمتوں نے ہر طبقے اور شخص کو متاثر کر رکھا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے بڑھتی مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور ایسے میں کسی گھر میں صرف ایک کمانے والا ہو تو کیا اس کی محدود آمدن سے گھر چلانا ممکن ہے؟۔ ایک ڈرائیور نے بی بی سی کو بتایا کہ پٹرول کی موجودہ قیمت کے باعث اب خرچہ بھی نہیں نکل پاتا‘‘۔
ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بجلی، گیس، پٹرول اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کا گزشتہ برس سے موازنہ کریں تو واضح ہو گا کہ لوگ دوسری نوکریوں یا ذرائع آمدن بڑھانے پر کیوں مجبور ہیں۔ مہنگائی کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور گھریلو صارفین کے لیے 400کیوبک میٹر گیس کا سلینڈر جو 1460روپے میں دستیاب تھا آج اُس کی قیمت 3100روپے ہو چکی ہے۔ یہ ملک 70ہزار ارب کا مقروض ہو گیا ہے۔ مارچ کے بعد اب تک یہ ملک 3004ارب کا مقروض ہو گیا ہے۔
اب ایک خبر اور ملاحظہ فرمائیں ’’ وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی لانے کے لیے اپنے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ خالی اسامیوں کو ختم کر دیا ہی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے بقول وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی اسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اب ان خالی اسامیوں پر بھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا حکومتی اخراجات میں کمی کے اقدامات کو 30 جون تک مکمل کر لیا جائے گا‘‘۔
جب حکومت کی جیب خالی ہوئی تو پھر اصلاحات کا خیال آ جاتا ہے۔ ایسے میں جو متوسط اور نچلا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024ء میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3فیصد رہی، جو 2023ء کے مقابلے میں 7فیصد زیادہ ہے، ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30لاکھ مزید پاکستانی غربت کا شکار ہو گئے ۔ معاصر ’’ جہان پاکستان ‘‘ کا اداریہ یہ بتاتا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں دو سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ ایک آدمی سے پوچھیں تو وہ آپ کو اپنا دکھڑا اس کرب سے سنائے گا کہ آپ بھی آبدیدہ ہو جائیں۔
گرمیوں میں بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے نے پورے پاکستان کو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک سال کا بل دو ماہ میں وصول کیا گیا۔ پھر ریلیف کے نام پر نوے فیصد عوام کو دھوکہ دیا گیا۔ یہ طبقہ جو دو سو کم ہونٹ بجلی استعمال کرتا ہے، خود وزیر اعظم کے بقول نوے فیصد ہے۔ وزیر اعظم کا ریلیف اسے نہ مل سکا اور میاں نواز شریف نے جو پانچ سو یونٹس تک کے صارفین کو ریلیف دینے کا وعدہ کیا وہ بھی دس فیصد صارفین تک پہنچا۔ اور دو سو ایک سے پانچ سو یونٹس کے صارفین کو ریلیف ملا۔
جب سے شہباز شریف وزیر اعظم بنے ہیں ( نگران اور موجودہ سیٹ اپ ) کسی ایک چیز کی قیمت میں کمی نہیں آئی۔ ہاں فقط سولر پینلز کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی اور بس۔ اس کے علاوہ کوئی ایک چیز آپ نہیں گنوا سکتے جس کی قیمت نیچے آئی ہو۔ مہنگائی کی آخری مثال مرغی کی قیمت میں مرضی کا اضافہ ( دو سو روپے فی کلو ) اور گھی کی قیمت میں حیرت انگیز اضافہ ہے ( کم و بیش ڈیڑھ سو روپے فی کلو ) متوسط طبقے کو تو چھوڑ دیجئے، ایک عام آدمی کا سوچئے۔ ایک دہاڑی داڑ کی آمدنی کے مطابق بجٹ بنا کر دکھائیے۔ حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب ہے کہ اس نے عام آدمی کے لیے کیا کیا ہے۔ کیا سوچا ہے۔ کیا اس کو جینے کا حق نہیں ہے۔ اگر ہے اور یقینا ہے تو پھر اس کا چلا کر دکھائیے۔ اس کی آمدنی کے مطابق ایک مہینہ جی کر دکھائیے۔ اگر آپ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے اور یقیناَ نہیں کر سکتے تو ایسی خبریں چھپوا کر ان کا دل نہ جلائیے۔ غریب کہ آہ سے ڈریے جو عرش ہلا دیا کرتی ہے۔ یہ اقتدار ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ، آج ہے کل نہ ہو گا۔ سو عوام کے لیے نہ سہی اپنے کل کا سوچئے ۔ اگر کل کو آپ کو ووٹ کے لیے پھر عوام کے درمیان آنا پڑا تو ان کا سامنے کیسے کریں گے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسی اندھی رپورٹنگ سے آپ کسی کو دل نہیں جیت پائیں گے۔ ایسی خبروں کی اشاعت سے عوام کا غم و غصہ اور بڑھے گا۔ ان کو ریلیف نہیں دے سکتے تو انھیں چڑائیں بھی نہیں۔ کسی شاعر نے شاید اسی اخبار کے لیے لکھا تھا:
ہمارے شہر کی آنکھوں نے منظر اور دیکھا تھا

جواب دیں

Back to top button