کھلے گٹر، بچوں کی موت کا سامان
تحریر : روشن لعل
کھلے ہوئے گٹروں میں بچوں کے گر کر مرنے کی خبریں یہاں آئے روز سننے کو ملتی ہیں۔ چند روز قبل کراچی کی شاہ فیصل کالونی میں عباد نامی بچہ کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل لاہور کے چلڈرن ہسپتال کے کمپائونڈ میں تین سالہ جاسم کھلے گٹر میں گر کر جان کی بازی ہار گیا تھا۔ کوئی بچہ چاہے کراچی میں ڈھکن کے بغیر گٹر میں گر کر جاں بحق ہو یا لاہور میں کھلا ہوا گٹر کسی بچے کی موت کا سامان بنے ، اس طرح کا واقعہ پورے ملک کے لیے انتہائی شرم کا باعث ہونا چاہیے۔ بغیر ڈھکن کے کھلا ہوا گٹر پاکستانیوں کے لیے اس وجہ سے بھی زیادہ شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کہ یہاں موجود موجود موئن جو دڑو کے قدیم باسیوں نے دنیا میں سب سے پہلے نکاسی آب کا ایسا زیر زمین نظام متعارف کرایا تھا جس میں پتھروں کی سلوں سے ڈھکے ہوئے گٹر بنائے گئے تھی۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے علاقے کے قدیم باسی اپنی فہم و فراست اور احساس کی بدولت اس بات سے آگاہ تھے کہ اگر نکاسی آب کے لیے استعمال کیے جانے والے گٹروں پر ڈھکن نہ رکھے گئے تو کھلے گٹر کسی جان لیوا حادثے کا باعث بن جائیں گے۔ کھلے گٹروں کو جان لیوا سمجھنے میں ہماری آگاہی ، اس علاقے کے قدیم باشندوں سے کسی طرح بھی کم نہیں، لیکن احساس کا عالم یہ ہے کہ اگر ہمارے قدیم لوگ دوسروں کا احساس کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے تو ہم بے حسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر کوئی بچہ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں کسی کھلے ہوئے گٹر میں گر کر مر جاتا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہمارے حکمران بے حس ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ نکاسی آب کے نظام کی نگرانی کرنے والا محکمہ اور اس علاقے کے لوگ بھی بے حس ہیں جہاں کھلا ہوا گٹر موجود ہونے کے باوجود کسی نے اس کے ارد گرد ایسی شے رکھنے کی زحمت گوارا نہ کی جو کسی کے گٹر میں گرنے کے آگے رکاوٹ بن سکے۔
مفاد عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بے حسی کا مظاہرہ کرنے میں حکمرانوں، سرکاری محکموں اور عام لوگوں کی طرح ہمارے میڈیا کے لوگ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ میڈیا پر کھلے گٹروں میں بچوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں تو نظر آتی رہتی ہیں مگر جس انداز میں ان خبروں کو نشر کیا جاتا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں عوام کی ہمدردی میں نہیں بلکہ کسی خاص سیاسی جماعت اور اس کی حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے تیار اور پیش کیا گیا ہے۔ اگر ایک ٹی وی چینل کی صبح کی نشریات میں اینکر پرسنز عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ کراچی میں معصوم بچے کے کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے کی افسوسناک خبر تو ملکہ اور شہنشاہ جذبات بن کر پیش کریں لیکن چند چھ ہفتے قبل لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں تین سالہ جاسم کے کھلے گٹر میں گر کر مرنے کے واقعہ پر ان کے ہو بہو جذبات ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہ ملیں تو پھر ان کے متعلق یہ سوچ پیدا ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی اداکاری کے تحت کرتے ہیں۔ بچوں کی موت کا سامان بننے والے کھلے گٹروں پر کالم لکھتے ہوئے عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ کاذکر قطعاً نہ کیا جاتا اگر مورخہ 09-01-25 کے مارننگ شو میں ایک دوسرے موضوع پربات کرنے کے دوران ، ان کی سیاسی اداکاری کا تسلسل نظر نہ آیا ہوتا۔ اس اینکر جوڑی نے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک ان لوگوں کے غیر مہذب رویوں پر تنقید کی جو ایک عرصہ سے محترمہ مریم نواز کی صنفی بنیادوں پر تضحیک کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف سے وابستہ لوگوں کے سوشل میڈیا پر نظر آنے والے نازیبا رویوں پر بات کرتے ہوئے عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ نے یہ تو کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے جس پالیسی کے تحت اپنے کارکنوں کو غیر مہذب رویے اختیار کرنے پر مائل کیا اب وہ پالیسی خود ان کے گلے پڑ گئی ہے مگر جان بوجھ کر عوام کو یہ حقیقت بتانے سے گریز کیا کہ جو پالیسی پی ٹی آئی کی قیادت کے گلے پڑی نظر آرہی ہے اس پالیسی کی ایجاد کسی اور کے نہیں بلکہ خود مریم نواز کے اپنے گھر سے ہوئی تھی۔ عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ نے جس طرح آدھا سچ چھپا کر پی ٹی آئی کے لوگوں کے سوشل میڈیا پر ظاہر ہونے والی غیر مہذب رویوں کے متعلق باتیں کیں اسی طرح وہ کھلے گٹروں میں گر کر جاں بحق ہونے والے بچوں کی خبریں نشر کرتے وقت پورا سچ بتانے سے گریز کر جاتے ہیں۔
کھلے گٹروں میں گر کر موت کے منہ میں جانے والے بچوں کے متعلق پورا سچ بولنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اگر کراچی میں ایسا واقعہ رونما ہونے پر مرتضی وہاب یا مراد علی شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اسی طرح چلڈرن ہسپتال لاہور کے واقعہ پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پر بھی تنقید ہونی چاہیے ۔ اس معاملے سے جڑا اصل سچ یہ ہے کہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب یا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے نیچے بھی بہت سے محکمے اور لوگ ہیں جو گٹروں پر رکھے ہوئی ڈھکنوں کی حفاظت کرنے اور چوری یا تلف ہونے کی صورت میں نیا ڈھکن رکھنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ اگر تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے تو گٹروں کی تعمیر سے لے کر ان کی مرمت اور نکاسی آب کی روانی کو برقرار رکھنے کی براہ راست ذمہ داری سب ڈویعنل آفیسر اور اس کے ماتحت سب
انجینئروں پر عائد ہوتی ہے اور بلدیاتی انتظام کے مطابق یونین کونسل اور ٹائون کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے بعد کہیں جاکر پورے شہر کا میئر نکاسی آب اور گٹروں کے ڈھکنوں سمیت دیگر امور کا انتظامی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اب یہاں المیہ یہ ہے کہ جو ایس ڈی او بنیادی طور پر نکاسی آب سے متعلقہ امور کا ذمہ دار ہوتا ہے ، کسی گٹر کا ڈھکن نہ ہونے سے کوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں، میڈیا کے لوگ اس سے کچھ پوچھے اور کہے بغیر براہ راست میئر یا وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میڈیا کے لوگوں کے اس طرح سے پوائنٹ سکورنگ کرنے کے بعد بھی گٹروں کے ڈھکن چوری ہونے اور کھلے گٹروں میں بچوں کے گرنے جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو روکنا ہر گز کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جب تک گٹروں کے ڈھکنوں میں لوہا موجود رہے گا ان کی نشیئوں کے ہاتھوں چوری روکی نہیں جاسکے گی ۔ ایسی صورت صورتحال میں ضروری ہے کہ گٹروں کے موجودہ ڈھکنوں کی جگہ ایسے ڈھکن نصب کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے جن میں لوہا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ جب تک گٹروں کے ڈھکن تبدیل کرنے کا عمل مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک نکاسی آب پر مامور ہر ایس ڈی او کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اس کے علاقے میں کوئی بھی گٹر معصوم بچوں کی موت کا سامان ثابت نہیں ہونا چاہیے۔