ColumnImtiaz Aasi

دورغ گوئی کی سیاست

تحریر: امتیازعاصی
کبھی کبھی سوچتا ہوں ہمارے سیاست دان عوام سے سچ کیوں نہیں بولتے کیا انہیں عوام سے دورغ گوئی سے کام لینے میں سکون ملتا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ملک میں ایک بھی سیاست دان ایسا نہیں جو عوام سے سچی بات کرتا ہو جھوٹ بولنا سیاست دانوں کا وتیرہ ہے۔ کئی دن سے بحث جاری ہے عمران خان کو بنی گالا شفٹ کرنے کی آفر دی گئی تھی۔ عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بنی گالا رکھنے کی آفر ہوئی تھی۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ عمران خان کو بنی گالا منتقل کرنے کی تردید کرتے آرہے ہیں۔ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے انکشاف کیا ہے علی امین گنڈا پور بنی گالا شفٹ کرنے کا پیغام لے کر آئے تھے۔ وزیراعلیٰ گنڈا پور آفر لے کر آئے تھے تو سچ ہی ہوگا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا اگر حکومت نے عمران خان کو بنی گالہ منتقل کرنے کی آفر دی تو اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے ۔
جانے سیاست دانوں کو سچ بولنے میں کس بات کا خوف ہوتا ہے ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کیا ایک مسلمان کو جھوٹ بولنے کی ہمارے مذہب میں اجازت ہے؟ قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے والوں کے لئے سکت وعید ہے اس کے باوجود ہم جھوٹ سے گریز نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی دور سے اب تک عوام مہنگائی سے پس رہے ہیں حکومت کا دعویٰ ہے مہنگائی کم ہوئی ہے۔ حکمرانوں کو بازار سے کبھی اشیاء ضرورت خریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے جو انہیں عوام کی مشکلات کا علم ہو۔ سرکاری پیسوں سے کچن چلانے والے مہنگائی کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی سخاوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ فارم 47کی مدد سے منتخب ہونے والوں کے اعزازیہ میں کئی گنا اضافہ کرکے ثابت کر دیا ہے انہیں غریب عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو دوام دینے میں دل چسپی ہے۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا کے کیفے ٹیریا میں جا کر کوئی دیکھے فارم 47والوں کے لئے مارکیٹ سے انتہائی کم سطح پر نہیں چند روپوں میں اچھے اچھے کھانے دستیاب ہیں۔ کیا عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں انہیں کن خدمات اور خوشی میں اتنی آسائشیں مہیا کی جاتی ہیں۔ علاج معالجہ کی کوئی حد نہیں جو ادویات چاہیں خواہ وہ کتنی مہنگائی کیوں نہ ہوں انہیں سرکاری طور پر فراہم کی جاتی ہیں حالانکہ انہیں لاکھوں روپے ماہانہ الاونس دیا جاتا ہے اس کے باوجود ان کے لئے اتنی سخاوت ایک غریب ملک کو زیب دیتی ہے؟ کوئی ایک سیاسی رہنما بتا دیں جو عوام سے سچی بات کرتا ہو بس ان کی سیاست کا مرکز و محور جھوٹ پر مبنی ہے۔ ہماری نظر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحب کے ٹوئٹ پر پڑی، فرماتی ہیں وہ چاہیں تو عمران خان کا کھانا بند کر سکتی ہیں۔ اتنی بھی فرعونیت کیوں؟ کوئی کسی قیدی کی روٹی بند کر سکتا ہے ایک سابق وزیراعظم کے ہوتے ہوئے اور بہتر کلاس ( بی) کا قیدی ہونے کے ناطے وہ اپنا کھانا باہر سے بھی منگوا سکتا ہے۔ محترمہ وزیراعلیٰ کو جیل مینوئل کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ہمیں بانی پی ٹی آئی سے کوئی لینا دینا نہیں، نہ ہمیں پی ٹی آئی میں کوئی جانتا ہے، کبھی اس کی بجلی بند کر دی جاتی ہے، کبھی اسے ڈھلائی نہیں کرنے دی جاتی، سینٹرل جیل راولپنڈی میں جیل عملہ تو نمائشی ہے، عمران خان کی نگرانی کے لئے کوئی علیحدہ مخلوق متعین ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں سرمایہ کاری کے بلند بانگ دعویٰ کئے تھے وہ سرمایہ کاری کہاں گئی ہے۔ سیاست دانوں میں اتنی اہلیت ہوتی تو عسکری قیادت کو ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council) بنانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ سمگلنگ روکنے کی ذمہ داری افواج سرانجام دے رہی ہے۔ ملک میں اتنے اداروں کے ہوتے ہوئے افواج کو سول کی ذمہ دری دینے کا مطلب سول ادارے سمگلنگ روکنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ ترقیاتی کام دیکھ لیں ہر حکومت نئے نئے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے جب کہ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ گزشتہ الیکشن میں تو حد ہو گئی عوام جنہیں ووٹ دے کر آئے وہ ایوانوں سے باہر ہیں۔ مسلمان ملکوں میں کوئی ملک ایسا ہے جس سے ہم نے بھیک نہ مانگی ہو۔ افسوس کا مقام ہے سیاست دانوں کی کاکردگی کے نتیجہ میں ہمیں اپنے اثاثوں کو فروخت کرنا پڑ رہا ہے اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے۔ ایک عدلیہ تھی جس پر عوام کو کچھ تو بھروسہ تھا مسلم لیگ نون کی حکومت نے 26آئینی ترمیم کرکے انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں نئے آنے والے ججوں کی مجوزہ فہرست دیکھ کر حیرت ہوئی کیسے کیسے من پسند وکلاء اور سیشن ججوں کو اعلیٰ عدلیہ میں لانے کا پروگرام ہے۔ وہ جو پہلے سے کام کر رہے ہیں انہیں قابو کرنے میں ناکامی کے بعد نیا راستہ نکلا لیا ہے ۔بس ایک ہی مقصد ہے کسی طرح عمران خان باہر نہ آسکے۔ پہلے وکلا تنظیمیں عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے سلسلے میں بڑی متحرک ہوا کرتی تھی۔ حکومت نے کوئی ایسا جادو کیا ہے انہوں نے چپ سادہ لی ہے۔ عجیب تماشا ہے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہی دی جا رہی ہے۔ چلیں بانی پی ٹی آئی نے تحریری طور پر مطالبات کی فہرست حکومت کو دینے کی اجازت دے دی ہے۔ جس ملک میں کتوں، گدھوں اور مینڈک کا گوشت عوام کو کھلایا جا رہا ہو اور حکومت بے بس ہو ایسے ملک کبھی ترقی کر سکتے ہیں یا وہاں کے عوام کو حکمرانوں پر اعتماد ہو سکتا ہے؟ لاقانونیت کا یہ عالم ہے پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں تجاوزات بدستور ہیں۔ بلدیات کے ملازمین مبینہ طور پر کروڑوں روپے ماہانہ بھتہ جمع کرتے ہیں وزیراعلیٰ کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے جاتے ہیں۔ گو رسمی طور پر فائل کا پیٹ بھرنے کے لئے اسٹنٹ کمشنر ویڈیو بنا کر بھیج دیتے ہیں۔ سیاست دان اقتدار میں آکر صدق دل سے غیر قانونی کاموں پر روکنے اور عوام سے سچ بولنے کی عادت ڈال لیں تو اس میں جہاں عوام کا ان پر اعتماد بڑھے گا وہاں لوگوں کی مشکلات کم ہونے میں مدد ملے گی ۔

جواب دیں

Back to top button