Column

خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیریؒ

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی شمع فروزاں کرنے کے لیے بزرگان دین اور اولیاء کرام نے بے مثال اور لافانی کردار ادا کیا، اس بزرگان دین میں سلسلہ چشتیہ کے روحانی سرتاج حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ سرفہرست ہیں، دنیا آپ کو خواجہ جواجگان، خواجہ بزرگ، ہند النبی، ہندالولی، سلطان الہند اور خواجہ غریب نواز کے القابات سے بھی جانتی اور بصد احترام آپ کا نام لیتی ہے۔ امسال اجمیر شریف میں آپ کے 813ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے تین تاجدار حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء ہندوستان میں اجمیر شریف اور نئی دہلی میں آسودہ خواب ہیں جبکہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرشد اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے محبوب خلیفہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن شیخ العالم، شیخ کبیر، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ( پاکپتن شریف) پاکستان میں استراحت فرما رہے ہیں۔ جن پاکیزہ نفوس اور عظیم ہستیوں نے ظلمت کدہ ہند کو نور حق سے منور کیا ان میں درخشاں اور نمایاں اسم گرامی امام اربا ب طریقت، پیشوائے اصحاب حقیقت قطب وحدت سلطان الہند حضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری کا ہے۔ آپ خاندان نبوت کے چشم و چراغ اور وارث علوم نبوت ہیں،انیس الارواح اور دیگر کتب سیر میں آپ کا شجرہ اس طرح مرقوم ہے: خواجہ معین الدین حسن سنجری بن سید غیاث الدین حسن بن سید احمد حسن بن سید طاہر حسن بن سید عبد العزیز بن سید ابراہیم بن امام علی موسیٰ رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین علی سجاد بن امام حسین شہید کر بلا بن امیر المومنین علی المرتضیٰ، اس طرح آپ حسینی نجیب الطرفین سید ہیں کیوں کہ آپ کی والدہ ماجدہ حسنی سادات میں سے تھیں، ان کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سیدہ بی بی ام الورع ( بی بی ماہ نور) بنت سید دائود بن حضرت عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید دائود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سیدنا حسن مثنیٰ بن سید نا امام حسن بن سید نا امام علی المرتضیٰ ، آپ کی تاریخ ولادت اکثر مورخین کے نزدیک 14رجب 537ھ بروز دوشنبہ ہے اور مقام ولادت خطہ سجستان کا قصبہ سنجر ہے بعض خطہ اصفہان کو آپ کا مولد قرار دیتے ہیں آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں کہ جب آپ شکم مبارک میں تھے تو دل کو عجیب مسرت و راحت محسوس ہوتی تھی۔ اور گھر میں ہر طرف خیر و برکت اور نورانیت نظر آتی تھی۔ آپ کے والد گرامی نہایت پر ہیز گار اور پاک باز تھے اور اپنے آبائو اجداد کے ورثہ روحانیت کے امین تھے، انہوں نے اپنے ہونہار صاحبزادے کو بہترین گھریلو ماحول میں دینی روحانی طور پر پروان چڑھایا، پہلے قرآن مجید حفظ کرایا۔ نو سال کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد مدرسہ تشریف لے گئے اور قلیل عرصے میں ظاہری علوم سے آراستہ ہو گئے، پھر روحانی علوم کے لیے اللہ تعالیٰ نے نئے جہان کھول دیئے، ابھی عمر شریف 15سال کو بھی نہ پہنچی تھی کہ والد گرامی سید غیاث الدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اور کچھ عرصہ کے بعد والدہ ماجدہ کی شفقت سے محروم ہونا پڑا، اس طرح نو عمری ہی میں عملی زندگی کی ذمہ داری کندھوں پہ آن پڑی والد گرامی سے ترکہ میں ایک باغ اور پن چکی حصے میں آئی تو اس پر معاش کا سلسلہ قائم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے دل و دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی وجہ سے بچپن ہی میں حکمت اور ہوش مندی کے آثار ظاہر ہونے لگے، ایک دفعہ بچپن میں عمدہ کپڑے پہن کر نماز عید کے لیے نکلے تو چیتھڑوں میں ملبوس ایک نابینا بچے پر نظر پڑی تو افسردہ ہو کر اس کے لیے اپنا نیا لباس اتار دیا اور خود پرانے کپڑے پہن لیے گھریلو ذمہ داریوں کے باعث اپنے باغ اور پن چکی کی خود دیکھ بھال کرتے تھے ایک دن باغ میں تشریف فرما تھے کہ ایک بزرگ ابراہیم قندوزی ادھر آنکلے تو آپ نے انہیں بہت ادب کے ساتھ ایک درخت کے سائے میں بٹھایا اور انگوروں سے تواضع کی۔ حضرت ابراہیم قندوزی اس خدمت گزاری اور ادب و احترام سے بہت متاثر ہوئے پھر پنیر کی روٹی کا ٹکڑا چبا کر آپ کے منہ میں ڈالا جس سے آپ کے دل کی دنیا بدل گئی اور عالم شباب ہی میں منازل سلوک پانے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ چند دنوں میں گھر بار باغ اور پن چکی بیچ کر سمرقند و بخارا کا راستہ لیا جہاں پانچ سال حصول علوم میں صرف کیے اور مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین جیسے جلیل القدر علماء سے کسب فیض کیا بعد ازاں سلوک وسیاحت اور روحانی علوم کے لیے بغداد، حرمین شریفین نیشا پور، شام، کرمان، تبریز، خرقان، ہرات، سبزوار، ملتان اور لاہور وغیرہ مراکز علوم ظاہر یہ و باطنیہ کی طرف مشقت آمیز اسفار کیے اور متعدد ارباب قلوب سے روحانی دولت حاصل کی۔ آغاز سفر میں جب نیشا پور پہنچے جہاں ہارون بستی میں اس زمانے کے ولی کامل، صاحب نظر، پیکر عرفان و عمل بزرگ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے پھر کئی سال تک مرشد کامل کی صحبت و تربیت میں رہے اور سخت مجاہدہ دریاضت کے بعد خلافت پائی، اس موقعہ پر مرشد کامل نے فرمایا معین الدین! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیے کیے تجھے ان پر عمل کرنا لازم ہے فرزند خلف وہی ہے جو اپنے گوش و ہوش سے اپنے پیر کے ارشادات پر عمل کرے اپنے شجرہ میں ان کو لکھے اور انجام تک پہنچائے تا کہ کل روز قیامت شرمندہ نہ ہو پھر مرشد نے اپنا عصا، خرقہ، نعلین اور مصلیٰ عنایت فرمایا۔ اور کہا یہ تبرکات ہمارے پیران طریقت کی یاد گار ہیں جو رسول اکرمؐ سے ہم تک پہنچے ہیں ہم نے تجھے عطا فرمائے ہیں اور جس طرح ہم نے عقیدت سے رکھے ہیں انہیں اپنے پاس رکھنا اور جب کوئی قابل مرد ملے تو اسے عطا کرنا۔
حضرت خواجہ معین الدین نے یہ سارے احوال اپنی کتاب انیس الارواح میں تحریر فرمائے جو مرشد کی صحبت میں نیشا پور اور حرمین شریفین میں پیش آئے۔ روحانیت کے اس سفر میں حضرت خواجہ مدینہ منورہ سے بغداد شریف تشریف لائے پھر وہاں سے ہوتے ہوئے ہرات، سبزوار، ملتان اور پھر لاہور پہنچے جہاں آپ نے سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزار پر چلہ کشی کی اور چلہ کشی کا مقام آج تک محفوظ ہے۔ لاہور سے پہلی بار اجمیر تشریف لائے ۔ اجمیر حضرت شیخ معین الدین کے تشریف لانے سے علم و عرفان کا مرکز بن گیا اور یہاں سے پیغام حق کی روشنی ہر طرف پھیلی اور ہندوستان بھر میں تصوف کا چشتی سلسلہ منظم ہوا۔ سلطان معزالدین کے بعد قطب الدین ایک تخت سلطنت پر رونق افروز ہوا اس نے میر سید حسین مشہدی کو اجمیر کا حاکم مقرر کیا، یہ حاکم حضرت خواجہ اجمیری کا بہت عقیدت مند تھا۔ جس کی کاوشوں سے اجمیر کے گردونواح کے ہزاروں لوگ آپ کے دست حق پرست پر مسلمان ہوئے پھر آپ کی کرامات و کمالات کا شہرہ بلند ہوا تو دور دراز سے لوگ آکر مشرف بہ اسلام ہونے لگے، آپ کے کمال اخلاق کے باعث لاکھوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے جس کا نظارہ آج تک مشہور ہے کہ آپ کے عرس مبارک میں ہندو مسلم سب لوگ شامل ہو کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت معین الحق کے روحانی کمالات کے اثرات کا ذکر صاحب کتاب اقتباس انوار نے بہت جامع الفاظ میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں حضرت خواجہ بزرگ کے سلسلہ میں ایسے مردان خدا پیدا ہوئے ہیں کہ ہر علاقے میں بادشاہی کر رہے ہیں اور ہندوستان کے کسی علاقے میں کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں آپ کے خلفاء سے مدفون نہ ہوا اور تصرف نہ کرتے ہوں حتیٰ کہ دوسرے سلاسل کے مشائخ بھی جو ہندوستان میں ہیں، حضرت خواجہ بزرگ کی ولایت معنوی کے فیض سے تصرف کرتے ہیں۔ بعض اس سلسلہ میں داخل ہو کر اور بعض ویسے آپ کی روحانیت سے نسبت پیدا کر کے تصرف کرتے ہیں جیسا کہ سالار مسعود غازی اور شیخ بدیع الدین شاہ مدار جن اولیائے کاملین نے حضرت خواجہؒ کے روحانی فیض کو آگئے پہنچایا اور آپ سے خرقہ خلافت پایاان میں سے چند مشہور خلفاء کے اسمائے گرامی ذیل میں خواجہ قطب الدین بختیار کا کی، خواجہ فخر الدین، قاضی حمیدالدین ناگوری، شیخ وجیہہ الدین، شیخ حمید الدین صوفی، شیخ برہان الدین بدو، خواجہ حسن خیاط، شیخ اوحد الدین کرمانی و غیر ہم۔ جب حضرت کا وقت وصال قریب آیا تو آپ نے خلافت نامہ لکھوایا اور خلافت حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو سونپی اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے عطا کردہ تبرکات بھی ان کے حوالے کیے۔ بعض کتب تاریخ مثلاً اقبال نامہ جہانگیری وغیرہ میں ہے کہ آپ کی کوئی اولاد وارث نہ بنی جبکہ بعض دیگر کتب میں آپ کی دو ازواج اور بیٹوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ آپ کے مقبرہ کی عمارت خواجہ حسین ناگوری نے بنوائی اس کے بعد دروازہ اور خانقاہ مندو کے بادشاہوں نے تعمیر کرائی۔ پہلی قبر شریف اینٹوں سے بنی تھی بعد ازاں سنگ مرمر کا صندوق اس پر رکھا گیا جب اجمیر کی حکومت سلطان بہادر گجراتی کے قبضے میں آئی تو اس نے کمال ارادت سے مزار شریف کی بعض عبارات تعمیر کرائیں پھر سلطنت دہلی اور مغلیہ دور کے حکمرانوں نے ہر زمانے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا یہاں تک کہ اکبر بادشاہ یا پیادہ حاضر ہوا اور ایک عالی شان مسجد بنوائی مزید برآں آپ کی اولاد اور مجاورین کے لیے جاگیر اور وظائف مقرر کیے۔ اس کی تفصیل حضرت شیخ عبد الرحمن چشتی کی تالیف مراۃ الاسرار میں ہے۔ آپ فرماتے ہیں محبت کی علامت یہ ہے کہ فرماں بردار بن کر رہو اور ڈرتے رہو کہ کہیں درگاہ سے دور نہ کر دئیے جائو۔ آپ کا ارشاد ہے عارفوں کا بلند مقام ہے جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو دنیا و مافیہا کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔ عارف وہ ہے کہ جو کچھ چاہے وہ فوراً اس کے سامنے آجائے اور جو کچھ کہے اس کا جواب سن لے۔ بدبختی کی علامت یہ ہے کہ آدمی گناہ کرتا رہے اس کے باوجود خود کو بارگاہ الٰہی میں مقبول سمجھے۔ ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے عیش و راحت کو چھوڑ دے اور یاد الٰہی کو محبوب رکھے۔ درویش وہ ہے جو کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے اور خود محبت خداوندی میں دو عالم سے بیگانہ ہو جائے۔ حضرت خواجہ خواجگان کی ذات بابرکات حیات ظاہری میں مرجع انام رہی اور بعد از وصال بھی منبع فیض رہی، آپ کے روحانی تصرف کا کمال دیکھئے کہ ایک انگریز نے 1835ء میں اجمیر شریف حاضری دی اور اعتراف کمال کرتے ہوئے لکھا ’’ ہندوستان پر یہ قبر والا حکومت کر رہا ہے ‘‘۔ اللہ کریم نے آپ کے مزار پر انوار کو مرکز تجلیات و رحمت بنایا جہاں عقیدت سے جانے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے حضرت معین الدین چشتیؒ کی جود و سخا کے بارے میں نقل ہے کہ میں بیس سال حضرت کی خدمت میں رہا ہوں کبھی کسی کو حضرت نے انکار نہیں فرمایا جب کوئی شخص کچھ مانگنے آتا حضرت مصلے کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو اس کی قسمت کا ہوتا وہ اس کو دے دیتے آپ کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے اس عرصہ میں حضرت کو غصہ ہوتے نہیں دیکھا۔ خواجہ غریب نواز نام کے ہی غریب نواز نہیں تھے بلکہ حقیقتاً آپ کے دل میں دوسروں کی ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آخر خواجہ صاحب کے دُنیا سے جانے کا وقت بھی آگیا 6رجب 627ھ بمطابق 16مارچ 1235عیسویں بروز پیر عشاء کی نماز کے بعد خواجہ صاحب نے اپنے حجرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا کسی کو بھی حجرہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، حجرے کے باہر خدام موجود تھے ۔ رات بھر ان کے کانو ں میں صدائے وجد آتی رہی ، رات کے آخری حصے میں وہ آواز بند ہوگئی صبح کی نماز کا وقت ہوا ، لیکن حجرے کا دروازہ نہیں کھلا تو خدام کو حیرت ہوئی آخر کار کافی سوچ بچار کے بعد دروازہ توڑا گیا تو دیکھا کہ غریب نواز وصال فرما چکے ہیں بوقت وصال آپ کی پیشانی مبارک پر بخط نور تحریر تھا ’’ہذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘ ( یہ اللہ کا حبیب ہے اور اللہ کی محبت میں جاں بحق ہوا) آپ کا مزار شریف دہلی سے 444کلو میٹر اجمیر شریف میں عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔ بوقت وصال آپ کی عمر 97برس تھی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے خواجہ فخر الدین نے پڑھائی، اور جس حجرے میں آپ نے وصال فرمایا تھا اسی میں آپ کو دفن کیا گیا آج بھی اجمیر شریف میں آپ کا مزار شریف زیارت گاہ خاص و عام ہے اس اللہ والے کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں مگر اس کا رعب آج بھی مخلوق خدا پر قائم ہے۔ آپ کا وہ عظیم مقام ہے کہ بڑے بڑے حاکم بھی آپ کے در پر ادب و احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں شہاب الدین غوری، شمس الدین التمش ، محمود خلجی ،جلال الدین محمد اکبر، شہنشاہِ جہانگیر، اورنگ زیب عالمگیر جیسے بادشاہوں نے بھی آپ کے مزار پر حاضری دی تھی۔ دنیا بھر سے لاکھوں زائر ین بھی آپ کے در پر سر نیاز پورے ادب و احترام کے ساتھ جھکاتے ہیں، جن میں ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی کے علاوہ ہر مذہب کے افراد آپ کے مزار سے ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتے ہیں۔ ہر سال اجمیر شریف میں 25جمادی الآخر بعد از نماز عصر درگاہ گیسٹ ہائوس سے رسم پر چم کشائی کا جلوس بڑی شان و شوکت سے نکلتا ہے اور یہ پرچم درگاہ شریف کے دروازہ پر نصب کر دیا جاتا ہے جو عرس شریف شروع ہونے کی ایک علامت ہے۔29جمادی الآخر کو فجر کی نماز سے قبل جنتی دروازہ کھول دیا جاتاہے، جو مسلسل چھ روز تک کھلا رہتا ہے ۔ آپ کا عرس مبارک یکم رجب سے چھ رجب تک ہوتا ہے ۔ روایت ہے کہ آپ کے عرس کے موقع پر ہر سال مزار مبارک میں موجود دو بہت بڑی دیگوں میں کھانا پکتا ہے اور کوئی شخص بھوکا نہیں رہتا ۔محفل سماع چاند رات سے شروع ہوتی ہے ۔ 9رجب کو بڑا قل ہوتا ہے اس دن ساری درگاہ دھوئی جاتی ہے ، عجیب سماں ہوتاہے ۔ عرس کے دوران خواجہ غریب نواز کے لاکھوں پرستار و معتقدین دو دراز سے مزار مبارک پر خواجہ غریب نواز کے فیوض و برکات حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں ۔ علاوہ ازیں عرس شریف کی تقریبا ت 6رجب کو اجمیر شریف کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں ہوتی ہیں پشاور میں عرس مبارک کی تقریبات پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با با کے صاحبزادے پیر سید سجاد بادشاہ کے زیر سرپرستی ختم خواجگان ہو تا ہے شجرہ شریف ، چشتیہ صابریہ پڑھا جا تا ہے اور محفل سماع میں عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے اس کے علاوہ خصوصی دعا فر ما تے ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جاتے ہیں ۔ جبکہ اجمیر شریف میں موجود آپ کے مزار شریف سے فیوض و برکات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔

جواب دیں

Back to top button