ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے: جسٹس امین الدین خان کے ریمارکس
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت میں جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہوسکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے۔
جمعرات کے روز سماعت میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دلائل جاری رکھے جبکہ جمعے کے روز بھی ان کے دلائل جاری رہیں گے۔
سماعت کے آغاز میں ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھ کر سنایااور کہا کہ حکم نامے کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق ہیں جن کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اس معاملے میں ایمرجنسی والا معاملہ تو نہیں ہے؟
جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق معطل ہونے کے لیے ایمرجنسی ہونا ضروری ہے۔ یہ معاملہ مختلف ہے کہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں اپیل کا حق نہ دے کر حقوق معطل ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اکتوبر 2023 میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے سے متعلق مختصر تحریری حکمنامے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے سے متعلق قرار دیا تھا کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالت میں نہ چلانے سے متعلق فیصلہ متفقہ ہے اور اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ 13 دسمبر کو پاکستان کی عدالت عظمی نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں سے مزید 85 ملزمان کے مقدمات کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی تھی پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں نے نو مئی کو تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث مزید 60 ملزمان پر جرم ثابت ہونے کے بعد انھیں دو سے 10 سال تک قید با مشقت کی سزائیں سنا دی ہیں۔
سزا پانے والوں میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی ایڈووکیٹ اور تحریکِ انصاف کے رہنما میاں عباد فاروق کے علاوہ دو سابق فوجی افسران بریگیڈئر (ر) جاوید اکرم اور گروپ کیپٹن (ر) وقاص احمد محسن بھی شامل تھے۔
جمعرات کے روز سماعت میں خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 8(3) کے مطابق جہاں ذکر ہے وہ مانتے ہیں، سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیتے وقت آرٹیکل 233 کی غلط تشریح ہوئی۔ پانچ رکنی لارجر بنچ نے بنیادی حقوق معطل ہونے کا تاثر لیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر کر دیا حالانکہ آرٹیکل 233 کا خصوصی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
خواجہ حارث نے عدالت کے روبرو کہا کہ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح درست ثابت کرنے کے لیے چھیڑا گیا۔ آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کرنے بنیاد حقوق معطل کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں سے عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالت اپنا اختیار استعمال کروا سکتی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا عدالتوں میں دفاع ہوسکتا ہے صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔ موجودہ کیس میں ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل نہیں تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا تو ایمرجنسی بھی نافذ نہیں تھی۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عملدرآمد روکنا بنیادی حقوق معطل کرنے کے برابر ہے۔
جسٹس جمال خان مںدوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 233 میں یہ نہیں کہا گیا کہ بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں۔ صدر بائے آرڈر کہہ سکتا ہے کہ بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایمرجنسی کی شق کا اس سے ڈائریکٹ تعلق نہیں ہے۔
مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ پیش
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مجرمان کو قید تنہائی میں رکھنے سے متعلق رپورٹ پیش کر دی۔ جس میں بتایا گیا کہ مجرمان کو صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کے بعدلان میں چھوڑدیا جاتا ہے، شام پانچ بجے تک مجرمان باہر رہتے ہیں۔ جیل میں ٹک شاپ ہے کافی وغیرہ بھی پی سکتے ہیں،
گھرسے مجرمان کومیٹرس بھی دیئے گئے ہیں۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے وکیل فیصل صدیقی نے مکالمہ کیا کہ ’آپ کا مطلب ہے گھروالا ماحول ہے،‘ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ نےغلط بیانی کی توہم جیل اصلاحات کمیٹی سے بھی رپورٹ منگوا لیں گے۔
خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق اپیل کا پس منظر
نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔
نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی۔
اکتوبر 2023 میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے عام شہریوں کے خلاف مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں اور چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے رواں ماہ معاملے کی سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔