اڑان پاکستان

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
اقوام عالم پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے نظر آتی ہے کہ ہر قابل ذکر ریاست جس کا اثر و رسوخ دنیا کی دیگر ریاستوں پر ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کی ترقی و خوشحالی، معیشت کی بنیاد پر ہے اور ہر ریاست ہر لمحہ ایسے مواقع کی تلاش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کی معاشی حیثیت مضبوط تر ہوتی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں ریاستیں ہمہ وقت اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ ان کی صنعتیں مسلسل چلتی رہیں اور صنعتی پہیہ کو رواں رکھنے کے لئے، جو اقدامات بھی اٹھانے پڑیں، اس سے گریز نہیں کرتی۔ ایک طرف صنعت کے لئے لازمی جزو بلکہ آکسیجن کی حیثیت رکھنے والا عنصر توانائی ہے، جس کے ارزاں حصول کی خاطر آبی ذخائر تعمیر کئے جاتے ہیں تا کہ ان آبی ذخائر سے نہ صرف ارزاں توانائی کا حصول ممکن ہو سکے بلکہ پانی کی قلت سے بھی بچا جا سکے اور زراعت کے لئے ہر موسم میں وافر پانی میسر رہے۔ اس کی مثال چین ہے جو اس وقت عالمی سطح پر برآمدات میں صف اول کا ملک شمار ہوتا ہے وہیں جاپان، ملائیشیا، کوریا وغیرہ ہیں کہ جن کی ترقی دنیا بھر کے لئے ایک مثال اور قابل تقلید ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دیگر ریاستیں بھی اپنی ترجیحات کا تعین درست طریقے سے کریں۔ یہاں یہ امر برمحل ہے کہ جنوبی کوریا کی ترقی میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کی مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کا پانچ سالہ منصوبہ، ترجیحات کا عمل دخل ہے اور جنوبی کوریا اس سے بخوبی مستفید ہوا ہے۔ گو کہ موجودہ عالمی صورتحال میں دنیا بھر میں معاشی حالات انتہائی غیر یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ مخدوش حالات سے دوچار ہیں اور جس خطے پر بھی نظر دوڑائیں، وہاں سے معاشی حالات کا رونا سننے کو ملتا ہے اور عوام کی اکثریت روزگار کے حوالے سے شدید متفکر نظر آتی ہے۔ کساد بازاری کی یہ صورتحال انتہائی ترقی یافتہ ممالک کو شدید دباؤ میں لئے ہوئے ہے جبکہ مشرق وسطی میں ہنوز معاشی سرگرمیاں قدرے بہتر ہیں لیکن مشرق وسطی میں بھی روزگار کے حوالے سے معاملات اب پہلے جیسے نہیں رہے بلکہ یہاں کی حکومتوں نے مقامی آبادی کو کاروباری سرگرمیوں میں شامل کر لیا ہے اور مقامی آبادی کی اکثریت اب دفاتر میں روبہ عمل نظر آتی ہے۔ مقامی آبادی کا کاروباری امور میں راغب ہونا اور اس کا حصہ بننے سے ڈیڑھ دہائی قبل تک، تارکین وطن کے لئے روزگار کا آسان حصول اب انتہائی مشکل ہو چکا ہے اور بیشتر تارکین وطن شدید دباؤ کا شکار ہیں کہ ایسے شعبہ ہائے زندگی کہ جہاں غیر ملکی بآسانی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے، اب ان کے لئے وہ مخصوص ملازمتیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں اور ان پر صرف مقامی افراد ہی کام کر سکتے ہیں۔ یوں ایک طرف مشرق وسطی کی ان ریاستوں نے اپنی مقامی آبادی کو نہ صرف حصول علم کی طرف راغب کیا ہے بلکہ تعلیم یافتہ شہریوں کو پرکشش روزگار فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کروا رکھی ہے کہ جیسے ہی وہ ایک مخصوص اہلیت کو پہنچتے ہیں، ان کے لئے روزگار کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سب قبل از وقت اور بہترین منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جو مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں نے اپنی قوم پرستی سے اپنے شہریوں کی خوشحالی کے لئے بنایا اور اس پر بتدریج عملدرآمد کرواتے ہوئے، اپنے شہریوں کو مستفید کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے وسائل سے مالامال ملک میں حکمرانوں کی پالیسیوں نے اس کی اہلیت سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان وسائل کے ساتھ جو لوٹ کھسوٹ کی ہے، اس نے پاکستانیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا ۔
پاکستانی تاریخ میں ہر حکمران کی جانب سے یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ وہ ملک کو عظیم تر بنا کر رہے گا لیکن بدقسمتی سے یہ صرف نعرے ہی ثابت ہوئے، عملا ہر حکومت کے جاتے ہی یہی حقائق سامنے آئے کہ ملک مزید کمزور ہو چکا ہے ۔ واجب الادا قرضوں میں مزید اضافہ ہو گیا اور پاکستان کے ادارے مزید زبوں حالی کا شکار ہو گئے، غربت مزید بڑھ گئی، آبادی کی خط غربت سے نیچے شرح میں مزید اضافہ ہوگیا، قوت خرید میں مزید کمی آ گئی، درمیانہ طبقہ مزید پس گیا اور اس کی حالت زار ناقابل بیان ہو گئی۔ منصوبہ سازی کا فقدان اور قومی مسائل پر ایک مفصل و مربوط پالیسی بنانے میں ناکامی، یا پالیسی میں عدم تسلسل ہر گزرتے دن، ریاست پاکستان کے مسائل میں اضافہ کرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام نے اس صورتحال کو مزید مشکل کر رکھا ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت کو یہ یقین ہی نہیں کہ وہ مزید کتنے دن چلے گی۔ سیاسی عدم استحکام میں کسی بھی سیاسی رہنما کو استثنیٰ حاصل نہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے مبرا نہیں کہ ہر انتخابی عمل کے فوری بعد دھاندلی کا شور و غوغا شروع ہوتا ہے جو بعد ازاں سڑکوں پر احتجاج کی صورت، دو توڑتی معیشت کو مزید مخدوش صورتحال سے دوچار کر جاتا ہے۔ ان عناصر کے ہوتے ہوئے، کسی بھی ریاست میں معاشی سرگرمیوں کو پنپنا، کاروارد سے کم نہیں اور کوئی بھی سرمایہ دار ایسے ماحول میں اپنا سرمایہ نہیں لگاتا بلکہ ایسی ریاست سے اپنا سرمایہ نکالنے کو ترجیح دیتا ہے، ایسی ہی صورتحال ریاست پاکستان کو بھی درپیش ہے کہ اس کے بیشتر سرمایہ دار اپنا سرمایہ یہاں سے منتقل کر چکے ہیں۔ اسے مذاق نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ موجودہ حکمرانوں کا اپنا ذاتی سرمایہ بیرون ممالک ہے جبکہ وہ دنیا میں سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جنہیں بخوبی علم ہے کہ سرمایہ کاری کی دعوت دینے والوں کا اپنا سرمایہ کہاں کہاں موجود ہے اور اگر ان حکمرانوں کو اپنے ملک پر اتنا اعتماد ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنا سرمایہ بیرون ملک نہ رکھتے، نتیجہ یہ کہ بالعموم ایسی سرمایہ کاری کانفرنسز / ملاقاتیں فقط گفتند، نشتند برخاستند ہی دکھائی دیتی ہیں۔
اس پس منظر میں وزیراعظم کی جانب سے نئے معاشی انقلاب کی نوید سنانا، کسی مذاق سے کم دکھائی نہیں دیتا کہ جب تک ان معاملات پر ازسرنو کوئی مفصل و مربوط پالیسی و منصوبہ سازی نہیں ہوتی، یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں معاشی انقلاب آ سکے؟ جیسا پہلے عرض کیا کہ ہر حکمران کو نبض شناسی میں کمال حاصل ہے، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ انہیں ان عناصر کا بخوبی علم ہے کہ جس سے پاکستان میں ترقی ممکن ہے لیکن عملاان کا کردار اس کے برعکس ہی دکھائی دیتا ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم نے نبض شناسی کا کمال دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے چند سالوں ( ایک، پانچ اور دس سال ) میں پاکستان پانچ E’sپر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ترقی کرے گا۔ ان پانچ E’sمیں پہلے نمبر پر ایکسپورٹ، ای پاکستان، انوائرنمنٹ، انرجی اور ایکویٹی کو رکھا گیا ہے جبکہ میری دانست میں اس ترتیب میں پہلے نمبر پر انرجی کو ہونا چاہئے کہ جب تک ارزاں انرجی صنعتوں کو میسر نہیں ہو گی، صنعتی پہیہ ہی نہیں چل سکتا اور جب صنعت ہی نہیں چلے گی تو ایکسپورٹ کیا ہو گا؟ ازراہ مذاق، پہلے بھی بارہا اس کا اظہار کر چکا ہوں کہ تقریبا ربع صدی سعودی عرب میں گزر چکی اور جب نئے نئے سعودی عرب آئے تھے، تب یہاں بکثرت ’’ میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعات مل جاتی تھی لیکن اب یہاں صرف ’’ پاکستانی‘‘ میسر ہیں کہ مشرق وسطی میں برآمد کرنے کے لئے پاکستان صنعت میں صرف افرادی قوت ہی باقی بچی ہی۔ شنید یہی ہے کہ پاکستان کی عمومی برآمدات یورپی یونین کو، بہ توسط جی ایس پی پلس سٹیٹس، اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو بھیجی جاتی ہیں وگرنہ حالات یہ ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ممکنہ طور پر پاکستانی مصنوعات عالمی قیمت فروخت کا مقابلہ ہی نہ کر پائیں۔ اس پس منظر میں یہ گمان کرنا کہ پاکستان اپنی برآمدات کو فروغ دے سکتا ہے، بظاہر انتہائی مشکل ہدف دکھائی دیتا ہے لیکن درون خانہ جو معاملات دکھائی دے رہے ہیں کہ نجی بجلی گھروں سے ازسرنو مذاکرات اور کئی ایک سے معاہدات کا خاتمہ ( جن کے متعلق ماہرین کی رائے کے مطابق، توانائی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی) صنعتی پہیہ کو متحرک و فعال کر سکے گا؟، اسی طرح دیگر ترجیحات کے حوالے سے بھی حقائق واضح ہیں بالخصوص انوائرنمنٹ، کہ سڑکوں کی بغیر منصوبہ بندی توسیع بلکہ اپنی سہولت کے لئے صدیوں پرانے درختوں کو اکھاڑنے والوں سے انوائرنمنٹ کے حوالے سے توقع کرنا عبث ہے کہ اگر اتنے دانش مند و مخلص ہوتے تو نوبت یہاں تک کیوں آتی؟ بہرکیف ہر پاکستانی کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سب سے بلند مقام حاصل کرے اور راقم کی بھی اس کی امید ہی رکھتا ہے بشرطیکہ اس نئی مہم میں حکمران واقعتا ریاست پاکستان سے مخلص ہیں اور اس کی ’’ اڑان‘‘ چاہتے ہیں وگرنہ ’’ اووووووو‘‘ کا احتجاج ہی پاکستانیوں کا مقدر ہو گا۔