CM RizwanColumn

خواتین سیاستدانوں پر رکیک حملے

تحریر: سی ایم رضوان
پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز کو ویسے تو گاہے بگاہے اور اکثر مخالفین تنقید کا نشانہ بناتے ہی رہتے ہیں لیکن اس بار پاکستان کے دورے پر آئے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان کے ساتھ ان کے مبینہ سفارتی مصافحے کی ویڈیو کو لے کر سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ پچھلے چند دنوں میں سوشل میڈیا صارفین نے خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز اور امارات کے صدر کے مصافحے کی تصاویر شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر فحش، لچر اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصروں کی انتہا کر دی ہے حالانکہ جب آپ اہم عہدے پر ہوں تو مرد و خواتین دنیا بھر میں مصافحہ کرتے ہیں اور اسے دنیاوی اعتبار سے قابل قبول بھی سمجھا جاتا ہے۔ چیچہ وطنی کے ایک نواحی گائوں کے سیکرٹری یونین کونسل رانا محمد عرفان نے مریم نواز کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کی ہے جس میں مریم نواز کہتی نظر آئیں کہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، یہ چیز میرے خون میں شامل ہے، دین سے محبت اسلام سے محبت میرے خون میں شامل ہے، دین کے جو احکامات ہیں ان کی پابندی کرنا میرے خون اور تربیت کا حصہ ہے۔ رانا محمد عرفان نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ایک خاتون جو کہ اس وقت پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہے اور کماحقہ بہتر کام کر رہی ہے لیکن مخالفین اس پر تنقید کے لئے گھٹیا اور پست الزامات لگا رہے ہیں جن کا کوئی اخلاقی جواز ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے سوشل میڈیا صارفین کو شرم آنی چاہیے جو ایک خاتون وزیر اعلیٰ پر بھونڈے الفاظ کہہ رہے ہیں لیکن ایسے سوشل میڈیا صارفین چند ایک ہیں جبکہ بداخلاقی اور بدتمیزی کے ساتھ تبصرے کرنے والے ہزاروں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ موجودہ دور یا کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاست میں نمایاں ہونے والی ہر خاتون کو اس طرح کے سنگین مسائل اور شدید کوفت کا سامنا رہا ہے۔ یہ وہ مشکل ہے جس کا سامنا فاطمہ جناح، بینظیر اور مریم نواز سمیت پاکستان کی ہر خاتون سیاستدان نے کیا ہے۔ کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ 56سال پہلے یعنی سال 1965 ء کو دو جنوری کے روز جنرل ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دی تھی۔ اکثر مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس فوجی ڈکٹیٹر نے انتخاب جیتنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا تھا۔ ان ہتھکنڈوں میں فاطمہ جناح کے خلاف کردار کشی کی مہم بھی شامل تھی۔ پاکستانی سیاست اور سیاسی بحث کا معیار خود ایک قابلِ بحث موضوع ہے۔ سیاسی بحث کس طرح ہونی چاہیے، اس کے آداب و ضوابط کا خیال کیسے رکھنا چاہیے اور اس کی حدود کیا ہیں، اس پر اکثر بات ہوتی ہے۔ اکثر ایک دوسرے پر رکیک حملے کیے جاتے ہیں اور ذاتی اور نجی معاملات کو سیاسی بحث میں گھسیٹ کر لایا جاتا ہے لیکن ایک مسئلہ ایسا ہے جو سیاسی بحث اور بیانیے کو باقی خرابیوں سے زیادہ داغ دار کرتا ہے۔ اسے انگریزی میں میسوجنی کہتے ہیں یعنی ایسا بیان یا اقدام جو صنفی بنیادوں پر خواتین سے نفرت اور تعصب پر مبنی ہو۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جب جنرل ایوب خان کے مقابلے میں انتخابات میں حصہ لیا تو ان پر کئی الزامات لگائے گئے، انہیں غدار، انڈین اور امریکی ایجنٹ تو کہا ہی گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح، کو ہرانے کے لئے فتوے بھی جاری کروائے۔ جس طرح کہ آج سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک خاتون کو نامحرم سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے۔ جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ’’ نسوانیت اور ممتا سے عاری‘‘ خاتون بھی قرار دیا تھا۔ اس میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی حلقے کی جانب سے اس بیان پر مذمت ہوتی دکھائی نہیں دی تھی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تب میڈیا آزاد نہیں تھا لہٰذا اگر کہیں مذمت ہوئی بھی ہو گی تو سامنے نہ آ سکی لیکن ستم تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کے خلاف تو صنفی بنیادوں پر کردار کشی کی پوری مہم ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔ اب بھی خواتین سیاسی رہنما اور کارکن اس رویے کی زد میں رہتی ہیں۔ خواتین سے متعلق نفرت انگیز اور متعصبانہ رویہ صرف ملک کی معروف خواتین سیاسی رہنماں تک ہی محدود نہیں۔ ایک تو یہ کہ سیاسی جماعتوں میں خواتین کارکنوں کی کمی ہے اور دوسرے یہ کہ انہیں شدید قسم کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بہت حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پارٹی کے اندر بھی آگے بڑھنے کے لئے مردوں سے مقابلے کے دوران اکثر خواتین کو بہت گندے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی لڑکیاں جنہیں سیاست میں دلچسپی تھی اور وہ باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہتی تھیں صرف مردوں کے اس طرح کے رویے کی وجہ سے سیاست سے دور ہو گئیں۔ مردوں نے بڑی آسانی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ سیاست صرف مردوں کا کام ہے۔ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ کا یہاں کیا کام ہے، آپ کی تو کچھ عرصے میں شادی ہو جانی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی لڑکی آگے بڑھنے لگتی ہے تو کئی مردوں کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کے لئے سیاست میں بہت نچلی سطح سے ہی مزاحمت شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ اوپر تک جاتا ہے۔ خواتین کے لئے مردوں کے مقابلے میں کھلا سیاسی میدان نہیں ہے۔ یہ بھی ستم ہے کہ خواتین کے کردار اور جسمانی خدوخال پر تبصرے ہونا عام سی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی گفتگو بہت نارمل ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی اراکین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تو وزیر اعلی صاحب کی گود میں بیٹھ کر آئی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنوں میں شرکت کرنے والی خواتین کے بارے میں بھی جو زبان استعمال کی گئی وہ بھی انتہائی نامناسب تھی۔ ابھی بھی جب کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں ان کی صنف کی بنیاد پر کوئی بری یا متعصبانہ بات کہی جاتی ہے تو معاشرے میں عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں آئی ہیں تو یہ سننا پڑے گا۔ سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا معمول کی بات ہے لیکن خواتین سیاستدانوں کو اپنے خلاف نفرت پر مبنی اور متعصبانہ بیانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو خواتین سیاستدانوں کے لئے ایک اضافی بوجھ ہے۔ بعض مرد سیاستدانوں کی جانب سے خواتین سیاستدانوں کے بارے میں ان کی جنس کی بنیاد پر جملے کسنے کا مقصد ان کے حوصلے پست کرنا اور انہیں ذہنی طور پر کمزور کرنا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ میں مزید پیچھے جائیں تو ملک کے پہلے وزیراعظم کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی کو بھی خاتونِ اول ہونے کے باوجود کئی باتیں سہنی پڑیں۔ وہ ساڑھی پہنا کرتی تھیں جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شخصیت اور فلاحی کاموں کے بجائے ان کے لباس پر بات کی گئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خواتین کو سیاسی میدان میں برابری کی بنیاد پر مقابلے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ انہیں اپنی ذات کے بارے میں ہر وقت ایک پریشانی اور دبا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 80اور 90کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کو آئے روز ایسے بیانات اور جملوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بے نظیر بھٹو کہلواتی تھیں لیکن ان کے سیاسی مخالفین انہیں بے نظیر زرداری کہتے تھے۔ جس طرح کہ آج کل پی ٹی آئی کے ٹرولز محترمہ مریم نواز کو مریم صفدر کہہ کر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ مریم کی طرح بے نظیر کو بھی اپنی سیاسی جدوجہد میں ہر وقت ایک اضافی خطرے کا سامنا رہتا تھا اور ایک خاتون ہونے کے ناطے محتاط رہنا پڑتا تھا۔ جبکہ ان کے مدِمقابل مرد سیاستدان ایسی کسی پریشانی کا شکار نہیں تھے۔ اس لئے میدانِ سیاست میں مقابلہ برابر کا نہیں تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے مخالفین کو شکست دی۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وہ بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے بھی گزریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی انجام دیئے۔ لیکن اس پر بھی تعریف کی بجائے بعض لوگوں کی جانب سے تمسخر کا نشانہ بنیں۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستانی خواتین سیاستدانوں کی مشکلات کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ یہ مسئلہ اکثر سیاسی جماعتوں میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں مریم نواز کے بارے میں ایک سابق وفاقی وزیر نے باتیں کیں اور جلسہ گاہ میں حاضرین نے قہقہے لگائے۔ مجمع میں بہت سے لوگوں کا ایسے گھٹیا بیان پر خوش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پر چسکے لیتے ہیں اور سیاسی بحث میں ایسے بیانات کی گنجائش موجود ہے۔ مریم نواز اگر خود کو مریم نواز کہلوانا پسند کرتی ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ انہیں مریم صفدر کہے لیکن ان کے کئی مخالف سیاستدان صرف سیاسی چسکے اور انہیں نیچا دکھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ شیریں مزاری، شیری رحمان اور فردوس عاشق اعوان سمیت کئی خواتین سیاستدانوں کے خلاف تمسخر آمیز بیانات پاکستان کی سیاسی بحث کو پستی میں دھکیلنے کی واضح مثالیں ہیں۔ جن لوگوں کو یہ بیانات یاد ہوں گے انہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ ان بیانات کا ان خواتین کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خواتین کے خلاف نفرت اور تعصب کی جڑیں طبقاتی نظام میں بہت گہری ہیں۔ جب کوئی خاتون سیاست میں قدم رکھتی ہے تو بہت سے لوگوں کے لئے وہ اپنے روایتی کردار سے باہر آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں جائے یا کسی بھی سطح پر قیادت کرے۔
بہت سے مردوں کے خیال میں وہ اپنے سماجی کردار سے تجاوز کرتی ہیں لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں بڑی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ آج جب کوئی مرد سیاستدان کسی خاتون سیاستدان کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہتا ہے تو اس کا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ لوگ مذمت کرتے ہیں اور ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔ اس ردعمل کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتی معاشرے کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ خواتین ہر شعبے میں سامنے آئی ہیں۔ ہر سطح پر کام کر رہی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلی عہدوں سے لے کر فیکٹریوں تک میں ایک ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ معاشی طور پر خود مختار ہوئی ہیں۔ اسی لئے معاشرے پر اپنے حقوق کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں۔ ملک کے سیاسی نظام میں بھی اپنا اثر بڑھا رہی ہیں حالانکہ بے نظیر بھٹو کے دو مرتبہ وزیراعظم بننے کے واقعے کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اسے آج بھی پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کے سفر میں ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بے نظیر کو جن لوگوں نے منتخب کیا ان میں اکثریت غریب لوگوں کی تھی۔ بے نظیر کو ووٹ دینے کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی لیکن عوام کا اتنی بڑی تعداد میں ایک خاتون کو ووٹ دینا ایک سماجی تبدیلی کا بھی اشارہ تھا۔ اسی طرح مریم نواز کی بھی ایک سیاسی حیثیت ہے اور صنفی بنیاد پر ان پر تنقید کرنے والے سوشل میڈیا ورکر ان کے سامنے منحنی بونے نظر آ رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button