سکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیاں 19خوارج ہلاک، 3جوان شہید

پاکستان 2001سے لے کر 2015تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا، جس پر سکیورٹی فورسز کے آپریشنز ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے قابو پایا گیا۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ملک میں پندرہ سال تک جاری رہنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں 80ہزار بے گناہ شہریوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ان میں بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے شہید افسر اور جوان بھی شامل تھے۔ روزانہ ہی ملک میں بم دھماکے، خودکُش حملے ہوتے تھے۔ عبادت گاہیں تک ان کے شر سے محفوظ نہ تھیں۔ عوامی مقامات پر حملے ہوتے تھے، سیکیورٹی اداروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ دہشت گردی کا عفریت کھل کر بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں مچارہا تھا۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ ہماری بہادر اور قابل فخر افواج نے اس دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کیا۔ پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی پر قابو پاکر دُنیا کو انگشت بدنداں کرڈالا۔ دُنیا بھر سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی گئی۔ کچھ سال امن و امان کی صورت حال بہتر رہی، لیکن جب سے امریکا کی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوا، اُس کے بعد سے دہشت گردوں نے پھر سے اپنے پر پھیلانے کی مذموم کوششیں کیں۔ ملک عزیز میں دہشت گرد کارروائیاں دیکھنے میں آنے لگیں۔ سیکیورٹی فورسز ان کے خاص نشانے پر رہتی ہیں۔ کبھی چیک پوسٹوں پر حملے ہوتے ہیں تو کبھی قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اہم تنصیبات پر دھاوا بولا جاتا ہے، ان حملوں کو ہماری بہادر افواج متواتر ناکام بناتی چلی آرہی ہیں۔ دہشت گردی کے پھر سے اُبھرتے چیلنج سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے تحت روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشنز ہورہے ہیں۔ دہشت گردوں کو کافی بڑی تعداد میں جہنم واصل اور گرفتار کیا جاچکا ہے۔ بہت سے علاقوں کو ان کے ناپاک وجودوں سے پاک کرکے امن و امان کی صورت حال بحال کرائی جاچکی ہے۔ آپریشن پوری تندہی کے ساتھ متواتر جاری ہیں۔ ہمارے کئی جوان و افسر بھی ان آپریشنز کے دوران شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں اور اُنہیں یقین ہے کہ وہ ایک بار پھر دہشت گردی کو کنٹرول کرکے امن و امان کی صورت حال کو واپس لاکر عوام میں پائے جانے والی تشویش کا خاتمہ کر دیں گی ۔ اس میں کسی قسم کے شک و شبے کی چنداں گنجائش نہیں۔ عوام کو بہادر افواج پر فخر ہے اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ہماری بہادر افواج نے 19خوارج کو کے پی کے میں ہلاک کرکے بڑی کامیابی سمیٹی ہے جب کہ ان آپریشنز کے دوران 3بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف 3مختلف کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں صوبائی دارالحکومت پشاور کے علاقے متنی، ضلع مہمند کے علاقے بائیزئی اور ضلع کرک میں کی گئیں۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ پشاور متنی آپریشن میں فتنۃ الخوارج کے 8دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، مہمند بائیزئی آپریشن میں بھی 8دہشت گرد مارے گئے، کرک آپریشن میں3خوارج دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان کارروائیوں میں مجموعی طور پر 19خوارج دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں سکیورٹی فورسز کے تین جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ فتنۃ الخوارج کے 19دہشت گردوں کی ہلاکت بڑی کامیابی ہے۔ اس پر بہادر سکیورٹی فورسز کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے، کم ہے۔ تین جوانوں کی شہادت پر پوری قوم اُن کے اہل خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ سرزمین پاک کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے بہادر سپوت وافر میسر ہیں، جو وطن پر مرمٹنے کے جذبے سے ہر وقت سرشار رہتے ہیں۔ ملک و قوم کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔ سکیورٹی فورسز اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اُن کی متواتر کارروائیاں اس کی واضح دلیل ہیں۔ فتنۃ الخوارج کے دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نزدیک ہے۔ جلد ہی قوم کو اس حوالے سے خوش خبری سننے کو ملے گی اور پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔
پاکستان: خواتین کی سگریٹ
نوشی سے متعلق ہوشربا انکشاف
سگریٹ نوشی کو صحت کے لیے ازحد نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال دُنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مختلف امراض کا شکار ہوکر لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک کے طول و عرض میں تمباکو نوشی کے رجحان میں تشویش ناک حد تک اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کم عمر بچے بھی اس لت کا تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ اہل خانہ سے چھپ کر گلیوں، محلوں میں چھوٹی عمر کے بچے سگریٹ نوشی کرتے دِکھائی
دیتے ہیں۔ ہمارا مستقبل سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ آج چھپ کر سگریٹ نوشی کرنے والے کل منشیات کے عفریت کا شکار بھی بن سکتے ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو اور ہر بچہ اس لت سے محفوظ رہے، لیکن یہ صورت حال سنگین مستقبل کی غمازی کرتی ہے۔ سگریٹ نوشی پر ہی کیا موقوف جہاں ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی ایک محتاط انداز کے مطابق تعداد ایک کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے، وہیں چھپ کر نشہ کرنے والوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ خواتین بھی بڑی تعداد میں منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔ اس تناظر میں منشیات اور اس کے گھنائونے دھندے میں ملوث تمام عناصر کے خاتمے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں خواتین بھی بڑی تعداد میں تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ روز ایک تحقیقی رپورٹ میں ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ملکوں میں سگریٹ نوشی مسلسل کم ہورہی ہے لیکن پاکستان میں یہ بیماری ناصرف بڑھ رہی بلکہ عورتوں میں بھی پھیل رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں سگریٹ نوشی کرنے والی خواتین کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تحقیق کاروں اور پروفیشنلز کے کیپٹل کالنگ نیٹ ورک کی طرف سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتاءج میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 7فیصد سے زائد خواتین روزانہ کی بنیاد پر سگریٹ نوشی کررہی ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سگریٹ نوش خواتین کی زیادہ تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور دیہی علاقوں میں 10فیصد خواتین سگریٹ نوشی کررہی ہیں۔ سگریٹ کے نشے میں مبتلا خواتین کا دوسرا بڑا گروپ کم تعلیم یافتہ خواتین (12فیصد) ہیں۔ پاکستان میں سگریٹ پینے والی خواتین میں سے ساڑھے 19فیصد کی عمر 25سے 29سال کے درمیان ہے۔ سگریٹ نوش خواتین میں سے 34فیصد کا تعلق سندھ سے ہے۔ ساڑھے 58 فیصد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں اور 71.7فیصد اَن پڑھ ہیں۔ 33فیصد سگریٹ نوش خواتین انتہائی غریب ہیں، 79فیصد اسموکر خواتین گھریلو ہیں۔ 95فیصد سگریٹ پینے والی خواتین شادی شدہ (یا طلاق یافتہ) ہیں۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہیں۔ اگر خواتین سگریٹ نوشوں کی تعداد اسی تیزی سے بڑھتی رہی تو آگے چل کر حالات مزید گمبھیر ہوسکتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے بڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ تمباکو نوشی کے انسداد کے لیے آگہی کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ تمباکو نوشی کے عادی تمام افراد کو اس کے سنگین نتائج کو سامنے رکھتے ہوءے اپنے اور اہل خانہ کی بھلائی کے لیے اس عادت سے نجات حاصل کرلینی چاہیے۔ اسی میں بہتری ہے۔ سنجیدہ کوششیں بارآور ثابت ہوسکتی ہے۔