Editorial

وزیراعظم کا انسانی اسمگلرز کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کرنے کا حکم

بیٹے یوں ہی بڑے نہیں ہوجاتے۔ برسہا برس کی ریاضتیں ہوتی ہیں۔ والدین خصوصاً مائیں بیٹوں کو بڑی مشکلوں اور جتن کے ساتھ بڑا کرتی ہیں، ہر ہر لاڈ اُٹھاتی ہیں، والدین خود ترس لیتے ہیں، لیکن بچوں کو کسی چیز کے لیے ترستے ہوئے نہیں دیکھ پاتے۔ اُن پر محبتوں کے ساتھ تمام تر سہولتوں کی برسات کرنے کے لیے ہر دم بے قرار رہتے ہیں، والدین کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ والدین کو توقع ہوتی ہے کہ مستقبل میں یہ ہمارا سہارا بنیں گے، جس طرح ہم نی بچپن میں ان کا خیال رکھا، بڑے ہوکر یہ اُس سے بھی بڑھ کر ہماری خدمت کریں گے۔ ملک کے طول و عرض میں بسنے والے اکثر بیٹے اپنے والدین کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرتے ہیں۔ بعضے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی قسمت یاوری نہیں کرتی، ملک میں مواقع نہ مل پانے پر بہت سے نوجوان سنہری مستقبل کے لیے بیرونِ ممالک جانے کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ جائز اور قانونی طور پر کی گئی کاوشیں جب رائیگاں جاتی ہیں تو بیرونِ ممالک جانے کی چاہ اور اپنا و اپنے اہل خانہ کا بہتر مستقبل انہیں انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھا دیتا ہے، جو بڑی محنت اور لگن سے بڑے کیے گئے بیٹوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کشتیوں، گاڑیوں میں لاد کر ڈنکیاں لگواتے اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ سالہا سال سے انسانی اسمگلنگ کا سفّاک کھیل جاری ہے۔ کتنے ہی محنت سے پال پوس کر بڑے کیے گئے بیٹے اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، کوئی شمار نہیں۔ 2023ء میں یونان کشتی حادثے میں 300کے قریب پاکستانی بیٹے انہی اسمگلروں کے گھنائونے کھیل کے باعث جان سے گزر گئے تھے۔ اس سانحے پر پوری قوم اشک بار اور اُداس تھی۔ اس معاملے پر بڑی لے دے ہوئی تھی۔ متعلقہ ادارے تیزی سے حرکت میں آئے اور کچھ عرصے تک متواتر کارروائیاں ہوتی رہیں۔ بڑے پیمانے پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے سربراہان اور کارندے پکڑے جاتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ کارروائیاں کم ہونے لگیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ بالکل ہی رُک گئیں۔ شاید یہ کارروائیاں رُکی ہی رہتیں، لیکن ان کارروائیوں کو پھر سے شروع کرنے کے لیے 2024ء کے اواخر میں پھر یونان کشتیوں کے حادثے تک کا انتظار کیا گیا، جس میں درجنوں پاکستانی جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے بعد سے تاحال ملک میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں، کارندوں اور ان کے سرکاری سہولت کاروں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ بڑی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کارروائیوں کو تمام انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے تک تواتر سے جاری رہنا چاہیے، اس میں خلل ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ انسانی اسمگلروں اور ان کے سرکاری سہولت کاروں کو کسی طور نہ بخشتے ہوئے نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ ان کا وہ حشر کرنا چاہیے کہ جس دولت کے لیے انہوں نے یہ گھنائونا کام کیا، ان سے وہی چھین لی جائے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے سہولت کار سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کو سراہتے ہوئے انسانی اسمگلرز کی جائیدادوں اور اثاثوں کی ضبطگی کے لیے فوری قانونی کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف کیے گئے اقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف حالیہ اقدامات پر ایف آئی اے کی کارکردگی کو سراہا، انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے سہولت کار سرکاری افسروں کے خلاف حالیہ تادیبی کارروائیوں کا آغاز خوش آئند ہے، انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت تعزیری کارروائی بھی کی جائے تاکہ وہ نشان عبرت بنیں۔ شہباز شریف نے ہدایت کی کہ اس مکروہ دھندے میں ملوث تمام افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے، استغاثہ کے لیے وزارت قانون و انصاف سے مشاورت کے بعد اعلیٰ ترین درجے کے وکلا تعینات کیے جائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی اسمگلنگ کا دھندا چلانے والے پاکستانیوں کے لیے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے اور ان کی پاکستان حوالگی کے حوالے سے جلد از جلد اقدامات کرے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت داخلہ کے تعاون سے عوام میں بیرون ملک نوکریوں کے لیے صرف قانونی راستے اختیار کرنے کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں ایسے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کی ترویج کی جائے، جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سرٹیفائیڈ پیشہ ور افراد بیرون ملک مارکیٹ کو فراہم کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والے افراد کی اسکریننگ کا عمل مزید موثر بنایا جائے۔ اجلاس میں وزیراعظم کو ملک میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات، سہولت کاروں کے خلاف قانونی کارروائی اور انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا حکم صائب معلوم ہوتا ہے، اس پر مِن و عن عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے بالکل بجا فرمایا اور درست ہدایات دیں۔ ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں کہ یہاں انسانی اسمگلنگ کے تمام راستے مسدود ہوجائیں۔ اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کو یہاں کھل کھیلنے کا بالکل موقع نہ دیا جائے، ان کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کے لیے تمام راہیں بند کردی جائیں۔ نوجوان قانونی طریقے سے ہی بیرون ملک کی راہ لینے کی روش اختیار کریں۔ غیر قانونی طریقوں سے جاکر اپنی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔ زندگی بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کی جائے۔
ادویہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
پاکستان میں صحت کے حوالے سے صورت حال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ اس حوالے سے ماضی کو کھنگالا جائے تو بڑی مایوس کُن صورت حال سامنے آتی ہے۔ تعلیم اور
صحت کبھی بھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔ اُن کی جانب سے سالانہ بجٹ میں صحت کے لیے انتہائی معمولی حصّہ مختص کرنے کا سلسلہ جاری رہا، جو ظاہر ہے ملکی آبادی کی ضروریات کے مطابق ہمیشہ ناکافی ثابت ہوتا رہا۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو دُنیا کے دیگر خطوں کی نسبت وطن عزیز میں جان بچانے والی ادویہ کی قیمتیں کئی گنا زیادہ ہیں۔ 2018ء کے وسط کے بعد کیے گئے گرانی کے واروں کے باعث غریب عوام پہلے ہی مہنگی کی چکی میں بُری طرح پس رہے ہیں، اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد دُشوار ہوکر رہ گیا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے اپنے علاج اور ادویہ کے استعمال کو متروک کردیا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے سے قاصر ہیں، ایسے میں مہنگا علاج اور ادویہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اُن کی دوائوں پر ہی ماہانہ ہزاروں روپے اُٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ اپنے بچوں کو پالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ بیماریوں کے رحم و کرم پر اپنی زیست کے دن پورے کررہے ہیں۔ جس ملک میں یہ عالم ہو، وہاں گزشتہ برس ادویہ کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے سلسلے دراز رہے۔ دوائوں کی قیمتیں 200فیصد سے زائد بڑھ گئیں۔ اتنی بے دردی کے ساتھ قیمتیں بڑھائی گئیں الامان والحفیظ۔۔۔ دوائوں کی مہنگائی نے غریب مریضوں کا بھرکس نکال ڈالا۔ ادویہ ساز کمپنیوں نے عوام کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس حوالے سے ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک میں سال 2024میں نگراں اور منتخب حکومتوں کے فیصلے مریضوں کو بہت مہنگے پڑ گئے، ادویہ ساز کمپنیوں کو اختیار دینے سے قیمتوں پر سرکاری کنٹرول کا نظام ہی ختم کردیا گیا، 80 ہزار سے زائد ادویہ 200فیصد سے زائد مہنگی ہوچکیں، میڈیکل ڈیوائسز پر بھی 70فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا، کمپنیوں نے ٹیکسوں کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام پر مہنگائی کا مزید بار ڈال دیا گیا، علاج کے ساتھ ادویہ بھی مہنگی ہوگئیں، دوائیں ڈی ریگولیٹ کرکے مقابلے کی فضا پیدا کرنے کا فیصلہ نگراں حکومت نے کیا، جسے موجودہ حکومت نے برقرار رکھا اور خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ ڈی ریگولیشن سے انسولین، ٹی بی، کینسر اور دل کے امراض کی دوائوں کی قلت تو ختم ہوگئی، لیکن نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ فارما ایڈووکیٹ محمد نور مہر کا کہنا ہے کہ ادویہ کی مہنگائی کے حساب سے 2024ء بدقسمت ترین رہا، 18فروری کو ادویہ کی قیمتوں کا کنٹرول اور نظام ہی ختم کردیا گیا، پاکستان میں 80ہزار سے زائد ادویہ مہنگی ہوگئیں اور میڈیکل ڈیوائسز پر 65سے 70فیصد ٹیکس لگایا گیا۔ پاکستان 960ارب کی فارما مارکیٹ ہے، جس پر نئے ٹیکسز کا اضافی بوجھ بھی عوام ہی کو ڈھونا پڑرہا ہے۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہیں۔ آخر عوام کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ اس تمام تر تناظر میں ضروری ہے کہ غریب عوام کے وسیع تر مفاد میں حکومت ادویہ کی قیمتوں کا کنٹرول کا نظام اپنے ماتحت لے، ادویہ ساز کمپنیوں کو من مانی ہرگز نہ کرنے دی جائے۔ ادویہ کی قیمتیں کم کرکے مناسب سطح پر لائی جائیں کہ ملک میں بسنے والے غریب عوام اس مہنگائی کے دور میں اپنی علاج کے سلسلے کو متروک کرنے کے بجائے جاری رکھ سکیں۔

جواب دیں

Back to top button