تنازعات کے اثرات اور حقیقت پسندانہ جائزہ
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی سرزمین، جو اپنی خوبصورتی، تاریخ اور ثقافتی تنوع کے لیے مشہور ہے، ایک ایسے گنجلگ مسائل کا شکار ہورہی ہے جس نے اس کے وجود کو مختلف ادوار میں لرزا دیا۔ انتہا پسندی ، دہشت گردی قبائل کی جنگیں، فرقہ واریت کے تنازعات، اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں پاکستان کی سماجی اور سیاسی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف ہماری تاریخ کی تلخیوں کو اجاگر بلکہ ہمارے مستقبل کی راہوں میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتا ہی۔ تنازعات کے معاملات ہمیشہ ایک ناقابل تلافی نقصانات کا باعث بنتے ہیں ۔ شائد ملکی یا علاقائی معاملات میں کچھ عناصر کی عادت ایک خول میں رہنے کی ہو یا پھر ان کی دنیا ہی ان کے علاقے و مفادات ہوں لیکن اس کے اثرات عام اور اجتماعی زندگی پر کس طرح بدترین حالات کا شکار ہوتے ہیں، اسے ہمیں سمجھنا ہوگا ۔
تاریخ کے سنگین حالات کو سمجھنے کے لئے جاننا ہوگا، مثال کے طور پر ، روایتی تنازعات کے نتیجے میں جنگ کے نئے دور کا آغاز اُس وقت ہوا جب 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم گرائے گئے۔ اس نے ایک ایسی اسلحہ کی دوڑ شروع کی جس کی دنیا نے پہلے کبھی نظیر نہیں دیکھی تھی۔ 1949ء میں سوویت یونین نے اپنا پہلا ایٹمی بم تیار کرکے امریکی جوہری اجارہ داری کا خاتمہ کیا۔ یہ بڑھتی ہوئی مسابقت 1950ء میں برطانیہ کے ایٹمی تجربے اور 1953 ء میں امریکہ کے پہلے ہائیڈروجن بم کے تجربے تک جاری رہی۔ یہ ہائیڈروجن بم ایٹم بم سے پندرہ ہزار گنا زیادہ وزنی اور ڈھائی ہزار گنا زیادہ موثر تھا۔ اس دوڑ نے نہ صرف اسلحہ کے ذخائر کو بڑھایا بلکہ ان کے ترسیلی نظام کو بھی ترقی دی۔ 1957ء میں جب سوویت یونین نے اسپوتنک اول کو خلا میں بھیجا تو اسی سال بین البرِاعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ بھی کیا۔ 1961ء میں سوویت یونین نے زار بم کا دھماکہ کیا، جو اب تک کی سب سے بڑی انسانی تخلیق کردہ دھماکہ تھا۔ جنگ کے دوران عام شہریوں کے دکھ اور تکالیف کو الفاظ یا اعداد و شمار میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ صرف 2017ء میں 36ملین بچے اور 16ملین خواتین بے گھر ہوئیں۔ 265ملین خواتین اور368ملین بچے مسلح تنازعات کے قریبی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اب ہمیں خود اندازہ کر لینا چاہیے کہ ہمارے تنازعات والے علاقوں میں ہمارے کتنے بچے ، بچیاں تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں ، اپنے خاندان کے افراد کو ہی شمار کر لیں کہ کتنی خواتین صحت کے مسائل کا شکار ہیں لیکن اس کے حل کے لئے وہ تو کیا ، مرد حضرات بھی گھروں کے باہر نہیں جاسکتے ۔
یہ تو ایک جنگی ماحول کی صورت حال کی مختصر عکاسی تھی اس کے سماجی مسائل کس طرح اثر انداز ہوئے یہ بھی جاننا ضروری ہوگا ، مثال کے طور پر تنازعات کی وجہ سے زچگی کی عمر کی خواتین کے لیے یہ خطرہ بڑھتا چلا گیا۔ 2023 ء تک، خواتین کی ہلاکتوں کی شرح 2022ء کے مقابلے میں دگنی ہوگئی۔ صحت کے نظام پر تنازعات کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق روزانہ کم از کم 500خواتین حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث مر جاتی ہیں، اور تنازعات والے علاقوں میں یہ صورتحال بدتر ہو چکی ہے۔ صحت کے مراکز تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ماہرین صحت تنازعات والے علاقوں میں کسی صورت جانے کو تیار نہیں ہوتے ، ان علاقوں کی عوام ناتجربہ کار طبی عملے کے رحم کرم پر رہ جاتے ہیں۔ ویکسی نیشن میں رکاوٹیں اور نئی بیماریوں کے ابھرنے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ غربت میں اضافہ اور وسائل کی کمی مقدر بن جاتی ہے ، آنے والی نسل صر ف نفرت کی فصل کے ساتھ بڑھتی ہے تو سوچنا ہوگا کہ کیا ان تنازعات نے نوجوان نسل کو ترقی دی یا زمانہ جاہلیت کے تاریخ اندھیروں میں دھکیل دیا ہے ۔
اقتصادی حالت پر غور فرمائیں کہ وہ کس طرح مسلح تنازعات ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور غربت کو بڑھا دیتے ہیں۔ 2030 ء تک ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 120ملین سے زائد افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ 2022ء میں 27 ملین افراد غربت کی لپیٹ میں آئے جبکہ2019ء کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے افراد کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، جن میں ماحولیاتی تباہی اور خوراک کی قلت شامل ہیں۔ جدید جنگ ایک خودکار عمل بن چکی ہے جہاں امن مذاکرات کے ساتھ اسلحہ سازی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جنگ اور مسلح تنازع کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں جنہیں فریقین کو پورا کرنے کے لئے غیر ضروری اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جس کے بوجھ سے تنازعات والے علاقے کی عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہ صرف علاقائی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کا اثر ملک کی صورتحال پر پڑتا ہے ، ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وسائل کا پورا کرنا جوئے شیر لانے کا مترادف ہے۔
عورتوں اور بچوں پر ان تنازعات کے اثرات بحران کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ 2023ء میں ہر چار مرنے والوں میں سے ایک خاتون تھی۔ تنازعات میں جنسی تشدد کے واقعات 50فیصد بڑھ چکے ہیں، اور روزانہ 180خواتین ایسی جگہوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں جہاں ماہر مدد دستیاب نہیں ہوتی۔ ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے ان تنازعات کے خاتمے کی کوشش کریں۔ جنگ نہ صرف نسلوں کی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا کرتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی شناخت اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور ہر معاملے میں پوائنٹ سکورنگ کی وجہ سے سمجھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون فروعی مفادات کے اجتماعی مفادات کو تباہ کر رہا ہے۔ یہ ایک طویل اور دشوار سفر ہوگا لیکن اگر ہم اپنے عزم اور اتحاد کو برقرار رکھیں تو ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک قوم کے طور پر اپنے مسائل کا سامنا کریں اور ان کا حل تلاش کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قبائلی جنگیں اور فرقہ واریت کے تنازعات ہمارے دشمن ہیں، اور ان سے نجات حاصل کرنا ہی ہماری بقا کا راستہ ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔