Editorial

دہشتگرد کبھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے

وطن عزیز میں فتنہ الخوارج کے دہشت گرد جہاں امن و امان کو سبوتاژ کر دینا چاہتے ہیں، وہیں ظاہر و پوشیدہ دشمن اور اُن کے آلہ کار بھی امن و امان کی صورت حال کے درپے ہیں۔ دشمنوں کے زرخرید غلام ملک میں متعدد تخریبی واقعات میں ملوث رہے ہیں اور اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ وہ ملک کو مسلسل بدامنی، انتشار اور سیاسی چپقلش و عدم استحکام کا شکار رکھ کر مسائل کے انبار تلے دبا کر نقصان پہنچانے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے لیے ہر مذموم ہتھکنڈا و حربہ اختیار کرنا ان کا وتیرہ ہے۔ پچھلے ڈھائی تین سال سے فتنہ الخوارج کے دہشت گرد مسلسل سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنارہے ہیں۔ چیک پوسٹوں، قافلوں اور اہم تنصیبات پر متواتر حملے کر رہے ہیں۔ ان مذموم واقعات میں کئی جوان و افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے برسرپیکار ہیں اور انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشن ہورہے ہیں۔ متعدد دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بہت سے علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کرایا جا چکا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ضلع کُرم میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب رہی۔ دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں میں 115 سے زائد اموات ہوئیں۔ یہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ تھا، اس پر گزشتہ روز گرینڈ جرگے میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ ضلع کُرم میں حالات معمول پر آنے والے تھے، جو ملک دشمنوں کو کسی طور گوارا نہیں، اسی لیے گزشتہ روز لوئر کُرم میں سرکاری قافلے پر فائرنگ کرکے ڈی سی کو زخمی کر دیا گیا، جو امن و امان کی بہتر ہوتی صورت حال کو پھر سے سبوتاژ کرنے کی ایک مذموم کوشش معلوم ہوتی ہے، چند روز قبل ہی کرم تنازع پر فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ٹل پارہ چنار شاہراہ کو 3ماہ بعد ہفتے کو کھولا جانا تھا جب کہ تربت میں بم دھماکے میں 4افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں، جس کی ذمے داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کرلی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لوئر کرم میں گاڑی پر فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود زخمی ہو گئے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق لوئر کرم کے علاقے بگن میں ضلعی انتظامیہ کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود زخمی ہو گئے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زخمی ڈپٹی کمشنر کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے تاہم ذرائع کا بتانا ہے کہ فائرنگ سے زخمی ڈپٹی کمشنر کرم کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لوئر کرم کے علاقہ بگن میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کے مطابق بگن میں فائرنگ سے ایک ایف سی اہلکار، ایک پولیس اہلکار اور 3راہگیر بھی زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ آر پی او کوہاٹ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں تصدیق کی کہ بگن میں فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر کرم زخمی ہوئے ہیں، فائرنگ فریقین نے نہیں کی، نامعلوم افراد کی جانب سے کی گئی، ملزمان کی تلاش جاری ہے، علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ مشیر اطلاعات کے پی بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ سی ایم ایچ ٹل میں جاوید اللہ محسود کے ساتھ موجود ہوں، اللہ کا شکر ہے کہ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے، کُرم کے لیے روانہ ہونے والے قافلے کو فی الوقت روک دیا گیا ہے، حالات کنٹرول میں ہیں، صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد قافلے کو روانہ کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے لوئر کرم میں سرکاری گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ شہباز شریف، محسن نقوی اور علی امین گنڈا پور نے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت تمام زخمیوں کے لیے صحتیابی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، امن و امان میں خلل ڈالنے والوں اور انسانیت دشمنوں کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا حکومت اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل ہے جبکہ وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا امن بحال کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور ہر حال میں امن بحال کر کے رہیں گے۔ دوسری جانب بلوچستان کے شہر تربت میں ہونے والے دھماکے میں 6افراد جاں بحق اور 32زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دھماکے کے زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں 5زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد جائے وقوعہ پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تربت دھماکے میں ایس ایس پی سیریس کرائم ونگ زوہیب محسن زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکے میں زوہیب محسن کے خاندان کے6 افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق زوہیب محسن فیملی کے ہمراہ دھماکے کے وقت وہاں سے گزر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کے حوالے سے مزید تحقیقات کی جارہی ہے۔ وطن دشمن عناصر اس طرح کی مذموم کارروائیوں سے امن و امان کی صورتحال کو خراب نہیں کر سکتے، وہ اپنے مذموم مقاصد میں کسی طور کامیاب نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی افواج ان کو ہر بار کرارا جواب دیں گی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ہر دم چوکس و تیار ہیں۔ وہ اپنے فرائض کو تندہی سے سرانجام دے رہی ہیں۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردوں اور ان کے سر پرستوں سے بہ احسن و خوبی نمٹ چکا ہے۔ اس بار بھی ایسا کرنا اُس کے لیے چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ وطن عزیز سے جلد فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں سمیت دشمنوں کے تمام آلہ کاروں اور زرخریدوں کا مکمل صفایا ہوگا۔ امن و امان کی مثالی صورت حال ہوگی اور ملک ترقی و خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوگا۔
یوم حقِ خودارادیت کشمیر!
مقبوضہ جموں و کشمیر ایسی جنت نظیر ہے، جہاں قابض بھارتی فوج نے کشمیری مسلمانوں کی زندگی اذیت ناک بنا ڈالی ہے۔ سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ کیا کیا مظالم بھارت اور اُس کی ظالم فوجوں نے مظلوم کشمیری مسلمانوں پر نہیں ڈھائے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ان مظالم میں ہولناک شدّت آچکی ہے۔ بھارت کی درندہ صفت فورسز مقبوضہ جموں و کشمیر میں پچھلے 8عشروں کے دوران ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمانوں کو شہید کر چکی ہیں۔ کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے، کتنی ہی عورتیں بیوہ ہو چکیں، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑ چکیں، کوئی شمار نہیں، کتنی ہی خواتین نیم بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں کہ ان کے شوہروں کو بھارتی دہشت گرد فورسز نے گرفتار کرکے لاپتا کر دیا یا نامعلوم قبروں میں اُتار ڈالا۔ مقبوضہ کشمیر میں ایسی کئی نامعلوم اجتماعی قبریں سامنے آچکی ہیں۔ ان تمام مظالم کے باوجود سلام ہے کشمیری مسلمانوں کو کہ اُن کے جذبہ حریت کو ماند کرنے کے لیے بھارت کی جانب سے تمام حربے آزمائے، تمام ہتھکنڈے اختیار کیے گئے، لیکن کشمیریوں کے اندر آزادی کا سورج دیکھنے کی تڑپ مزید گہری ہوئی اور ان کا جذبۂ حریت مزید توانا ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہر گھر شہید کا ہے۔ یہ دُنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ حریت رہنما بھارتی جیلوں میں قید ہیں یا نظر بند، کشمیری مسلمانوں کے حق کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو کچلنے پر بھارت ہر وقت آمادہ نظر آتا ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمان بنیادی حقوق سے یکسر محروم ہیں۔ اُن کے لیے عرصۂ حیات پچھلی آٹھ دہائیوں سے تنگ ہے۔ 5جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ میں کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت دینے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ اس پر بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس قرارداد کو منظور ہوئے 76سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن آج تک بھارت مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنی رضامندی سے منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے گریزاں ہے۔ اس حوالے سے اُس کی ہٹ دھرمی انتہائوں کو پہنچی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ اسی قرارداد کی یاد میں گزشتہ روز کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں یوم حق خود ارادیت کشمیر کے طور پر منایا گیا، اس موقع پر کشمیری مسلمانوں نے اپنے اس عزم کی تجدید کی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اپنے ناقابلِ تنسیخ حق، حق خود ارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر آزاد جموں و کشمیر، پاکستان اور دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں سمیت مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا اور اقوام متحدہ کو باور کرایا گیا کہ اسے تنازع کشمیر کے حل کے لیے اپنی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔ 76سال گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد میں واحد رکاوٹ بھارت کا منفی رویہ، ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے۔ عالمی ادارے کی قرارداد پر اب تک عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کشمیری مسلمان مسلسل مصائب ومشکلات کا شکار ہیں۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک جو جانوروں کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتے ہیں، اُنہیں اپنے ضمیر کو بیدار کرتے ہوئے جیتے جاگتے کشمیری مسلمانوں کا درد محسوس کرکے، وہاں کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق اُنہیں زیست گزارنے کا حق دلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے اور بھارتی مظالم سے کشمیری مسلمانوں کو نجات دلانے کے لیے کاوشیں کرنی چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button