
تحریر : سی ایم رضوان
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا 97واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی، سابق وزیراعظم اور ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے یوم پیدائش کے حوالے سے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ شہید بھٹو نے قائد عوام کا حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے استحصال کے شکار عوام کو سوچنے کا شعور اور عزت سے جینے کا سلیقہ دیا۔ بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کردار پر کاربند رہ کر موت کو گلے لگایا۔ ان کی اس شہادت نے انہیں ملکی سیاست میں عظیم مقام پر فائز کر دیا ہے۔ آج کے جیلوں اور ہتھکڑیوں سے ڈرنے والے چوری کے رسیا مجنووں کیلئے بھٹو شہید کی مثال بڑے معنی رکھتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا نظریہ اور افکار خاص طور پر پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ بھٹو شہید کے سیاسی عروج کی کہانی یہ ہے کہ 16دسمبر 1971کو بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو پی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز امریکی شہر نیویارک کیلئے روانہ کی گئی تاکہ وہاں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے ذوالفقار علی بھٹو کو وطن واپس لاکر باقی ماندہ، زخم خوردہ اور صدمے کے شکار پاکستان کے دو اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جاسکے۔ ذوالفقار بھٹو کو بیک وقت ملک کا صدر اور پہلا سویلین ’’چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ بنایا گیا اور بالآخر 14اگست 1973کو یہی ذوالفقار علی بھٹو 146ارکان کی اسمبلی میں 108نشستیں حاصل کرکے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے مگر ملک کو 1973کا پہلا متفقہ آئین دینے اور ’’سیاست کو ایوانوں سے میدانوں تک لانے والے‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کو محض ساڑھے تین سال بعد ہی ایک ’’متحدہ‘‘ حزب اختلاف کی ’’مشترکہ‘‘ مخالفت کا سامنا ’’پاکستان نیشنل الائنس‘‘ (پی این اے) کی صورت میں کرنا پڑا۔
منتخب وزیراعظم بھٹو کیخلاف یہ تحریک ملک کی نو مختلف سیاسی جماعتوں کے اُس اتحاد نے منظم کی جسے عرف عام میں ’’نو ستارے‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ پانچ جنوری 1977کو قائم ہونے والے ’’پی این اے‘‘ کے اس اتحاد میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام، ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان، اختر مینگل کے والد عطا اللہ مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ (قیوم)، پیر پگاڑا اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے موجودہ سربراہ سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا کے والد شاہ مردان شاہ کی مسلم لیگ (فنکشنل)، نوابزادہ نصر اللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور اصغر خان کی تحریک استقلال شامل تھیں۔ یاد رہے پی این اے کی تشکیل صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف ہوئی تھی اور سب جماعتیں ایک ہی نکتے پر متحد دکھائی دیتی تھیں کہ جس قیمت پر بھی ہو ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے نکال دیا جائے۔ پی این اے کے جھنڈے کے سبز رنگ نے اس کے سخت گیر مذہبی ہونے کے تاثر کو مزید گہرا کر دیا تھا جبکہ جھنڈے پر نو ستاروں کی موجودگی نے اسے ’’نو ستارے‘‘ کا عوامی نام بھی دیدیا تھا اور اس تحریک کو نظام مصطفیٰ تحریک کا نام اور نعرہ دینے سے یہ قیام کے فوراً ہی بعد دائیں بازو کے زیر اثر تحریک دکھائی دینے لگی۔ حزب اختلاف کی تقریباً تمام تر سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کو بظاہر لبرل (بائیں بازو کی جانب جھکائو رکھنے والے) اور ’’اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست‘‘ کا نعرہ بلند کرکے سیاسی اُفق پر چھا جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی مخالف کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ 22مارچ 2022کو دنیا بھر کے 57اسلامی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں تب منعقد ہوا تھا جبکہ بالکل اِسی طرح 22فروری 1974کو اسی تنظیم او آئی سی کا سربراہ اجلاس لاہور میں اُس وقت منعقد ہوا تھا تاہم جس وقت 1974کی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت عروج پر تھی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا یہ کارنامہ بھی انہوں نے پوری حزب اختلاف کو ساتھ ملا کر انجام دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس وزیراعظم بننے سے پہلے ہی سفارتکاری، وزارت اور صدارت کا بھرپور سیاسی تجربہ، اعلیٰ ترین تعلیمی قابلیت، ذہانت اور عوامی مزاج کو سمجھنے کی زبردست صلاحیت بھی تھی۔ نظریاتی سیاست کے اُس زمانے میں ذوالفقار بھٹو سیاسی اُفق پر اس وقت چمکے جب ملک تازہ تازہ دولخت ہوا تھا اور فوج کی ایک بڑی تعداد نوزائیدہ بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن چکی تھی اور ان 90,000فوجیوں کو بھی وطن واپس لانے کا کارنامہ ذوالفقار بھٹو نے ہی انجام دیا تھا۔ شدید ترین مخالفت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے ساری حزب اختلاف کو اس قومی مسئلے پر یکجا کیا اور پھر ساری سیاسی قوتوں کی اجتماعی رائے کے تحت پارلیمان کی متفقہ حمایت حاصل کرکے انڈیا گئے اور شملہ معاہدہ کرکے اپنے جنگی قیدی وطن واپس لائے۔
ملک ٹوٹ جانے کا صدمہ، جنگ کے اثرات اور اس بنیاد پر فوج کے حوصلے جیسی ہی وجوہات تھیں کہ پس پردہ قوتیں بھی سیاسی طور پر اس قدر طاقتور اور غالب نہیں تھیں جیسے کہ آج کی اسٹیبلشمنٹ دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سال 1973کے آئین کی تشکیل کے بعد آہستہ آہستہ پیش قدمی تو اسلام اور جمہوریت کے نعرے کے ساتھ کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی سوشلزم کا نعرہ اپنانے اور اسی کے تحت نیشنلائزیشن کا عمل بھی شروع کر دیا اور ان نجی پیداواری اداروں کو ریاستی تحویل میں لینا (نیشنلائز) کرنا شروع کر دیا۔ چین کے اُس وقت کے وزیراعظم چُو این لائی نے بھی ذوالفقار بھٹو کو مشورہ دیا تھا کہ نیشنلائزیشن کی پالیسی نافذ کرنے میں جلدبازی سے گریز کیا جائے۔ ایک تو اُس وقت حکومت میں اس عمل کو انجام دینے کیلئے اہل لوگ موجود نہیں تھے اور دوسرے اس کوشش میں ملک کا صنعتکار طبقہ بھی بھٹو کیخلاف ہوگیا تھا، اگرچہ بھٹو کمیونسٹ نہیں تھے مگر بعض حلقوں میں یہی تاثر بن گیا تھا کہ وہ کمیونزم کا راستہ اپنا رہے ہیں۔ 1970کے پاکستان میں مختلف آرا رکھنے کی اجازت تھی لیکن 1970کے پاکستان میں جہاں روشن خیال سمجھے جانے والے اور اشتراکی خیالات رکھنے والے حلقے بھی بہت مضبوط سیاسی قوت تھے اور تعلیمی اداروں میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) اور اسلامی جمعیت طلبا جیسی طلبا تنظیمیں ہوں یا کارخانوں میں مزدور انجمنیں (ٹریڈ یونینز) ہر شعبہ زندگی میں روشن خیال اشتراکی (لبرل) اور بنیاد پرست (مذہبی) حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ رہتا تھا۔ ایسے میں ذوالفقار بھٹو نیشنلائزیشن جیسے عمل پر مبنی اپنے اقدامات کی بنا پر تیزی سے مقبول ہوتے رہے۔ بھٹو نے اکیلے اور اپنے بل بوتے پر سیاست کی اور یہی وجہ تھی کہ بھٹو کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور یہ اندازہ غلط بھی نہیں تھا اور اسی کامیابی و مقبولیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو کے بعض مشیروں نے انہیں آئندہ مدت کیلئے بھی وزیراعظم بننے کیلئے قبل از وقت انتخابات کا مشورہ دیا تاکہ زیادہ اکثریت سے دوبارہ انتخابی کامیابی حاصل کرکے مزید طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ طویل المدت اقتدار بھی حاصل کرلیا جائے۔ پس بھٹو نے اپنی مقبولیت ہی کی بنیاد پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس وقت کے اخبارات، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے وہ انتخابات جو 1977کے وسط میں ہونا تھے، قبل از وقت یعنی جنوری 1977میں ہی کرانے کا فیصلہ کیا تاکہ حزب اختلاف کو فیصلہ سازی، انتظامات اور گٹھ جوڑ کرنے کیلئے زیادہ وقت نہ مل سکے۔ ایسے میں سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والی جماعتوں نے ان مجوزہ انتخابات میں اکیلے ہی پیپلز پارٹی کا سامنا کرنے سے بہتر یہی سمجھا کہ سب کو ساتھ ملا لیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں گٹھ جوڑ کیلئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی انتخابی گہماگہمی کا آغاز ہوگیا۔ چھوٹی بڑی ان کم و بیش نو مختلف سیاسی جماعتوں نے ذوالفقار بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک بڑے حکومت مخالف سیاسی اتحاد پی این اے میں ہی شمولیت کو فوقیت دی اور سب جماعتوں نے ایک ہی جھنڈے تلے متحد ہو جانے کو غنیمت جانا اور ہَل کے انتخابی نشان اور پی این اے کے سبز پرچم تلے جمع ہو گئیں اور یوں یہ بکھری ہوئی حزب اختلاف پوری قوت یکجا کرکے ذوالفقار بھٹو کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینئر رہنمائوں میں شامل قاری شیر افضل نے ایک بار بتایا کہ جب 1977میں پی این اے کی تحریک منظم ہونے لگی تو جے یو آئی کی قیادت میں اختلاف پیدا ہوا۔ جے یو آئی کے بہت سے سخت گیر رہنمائوں کا موقف تھا کہ احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دلوانے والے ذوالفقار بھٹو کیخلاف نظام مصطفیٰ تحریک نہیں چلائی جاسکتی۔ ان رہنمائوں کا خیال تھا کہ بھٹو نے تو یہ معاملہ کرکے عالم اسلام کی ایسی خدمت انجام دی ہے جو پہلے کبھی نہیں دی گئی تھی۔ بھٹو کیخلاف تحریک کی بنیاد کچھ بھی ہوسکتی ہے مگر نفاذ نظام مصطفیٰ نہیں ہو سکتی۔ بعض سخت گیر رہنمائوں نے تو مفتی محمود سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر تم لوگوں کی بخشش نہیں ہوئی تو اسی وجہ سے نہیں ہوگی کہ تم ذوالفقار بھٹو کیخلاف نظام مصطفیٰ تحریک چلانا چاہتے ہو۔ لیکن پھر بھی تحریک چلائی گئی اور بھٹو کی حکومت کیخلاف مہنگائی، غربت و بیروزگاری جیسے مسائل کو اجاگر کرکے حکومت مخالف سیاسی فضا قائم کی گئی۔ پھر جب تحریک چلی تو آج ہی کی طرح حکومت و حزب اختلاف دونوں نے جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں سے زبردست سیاسی فضا بنا دی، یہ سیاسی گہماگہمی ملک بھر کے شہری علاقوں میں زیادہ مثر رہی۔ دو جلوس شاہراہ فیصل (کراچی) پر بھی نکالے گئے۔ ایک اصغر خان نے نکالا تو ایک ذوالفقار علی بھٹو نے۔ دونوں میں زبردست حاضری تھی۔ وہی اصغر خان جو ذوالفقار علی بھٹو کیلئے 1960کے اواخر میں گرفتاری دے چکے تھے، انہوں نے ہی بھٹو کیخلاف جگہ جگہ جلسے کئے اور جلوس نکالے اور ذوالفقار بھٹو کا آخری جلسہ ککری گرائونڈ پر ہوا تھا جو رات کے چار بجے تک چلا۔ کئی کتابوں اور پس پردہ گفتگووں میں اُس وقت کے حالات کا تجزیہ کرنے والے کئی دانشوروں اور اُس وقت کے اخبارات کے مطابق پی این اے نے بلاشبہ جلسے جلوس وغیرہ تو بہت زبردست کئے اور شہری علاقوں میں عوامی اجتماعات بھی بہت زبردست ہوئے مگر یہ اتحاد ذوالفقار بھٹو جیسا عروج یا انتخابی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
سی ایم رضوان