Editorial

اشرافیہ کو ہر صورت ٹیکس نیٹ میں لایا جائے

پاکستان اور اُس کے عوام پچھلے کچھ سال کے دوران تاریخ کے بدترین دور سے گزرے ہیں، جہاں ایک طرف معیشت کا پہیہ جام سا نظر آتا تھا، وہیں گرانی کے نشتر غریبوں پر بُری طرح برسائے جارہے تھے۔ 2018ء کے وسط کے بعد منتخب ہونے والی حکومت کے دور میں مہنگائی میں ہولناک اضافے کے سلسلے شروع کیے گئے، اُس وقت کے وفاقی وزیر مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلنے کا بیانیہ فخریہ پیش کرتے دِکھائی دیے۔ ترقی کے سفر کو جان بوجھ کر بریک لگایا گیا۔ پاکستانی روپے کو ڈالر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، جو روزانہ کی بنیاد پر اسے بُری طرح چاروں شانے چت کرتا نظر آیا۔ روپیہ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔ نتیجتاً مہنگائی میں تین، چار گنا شدّت آگئی۔ ہر شے کے دام مائونٹ ایورسٹ سر کرتے نظر آئے اور غریب عوام بدترین بار تلے دبتے رہے، المیوں نی جنم لیا، بعضوں نے بیوی بچوں سمیت خودکشی کو تمام مشکلات و مصائب سے بچنے کا حل سمجھا۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام سست یا بالکل روک دیا گیا۔ دوست ممالک کو جان بوجھ کر ناراض کرکے پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں۔ پاکستان پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس نے ملک و قوم کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچایا۔ شہباز شریف کی قیادت میں اُس حکومت نے مختصر دور میں چند بڑے اقدامات کیے۔ نگراں دور بھی بہتر رہا۔ اُس میں بھی کچھ بڑے فیصلے کیے گئے۔ امسال فروری میں عام انتخابات کے نتیجے میں پھر سے شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی بناء ڈالی۔ آئی ٹی اور زراعت ایسے شعبوں میں انقلابی اقدامات یقینی بنائے تاکہ ان میں ملک ترقی کی معراج پر پہنچ سکے۔ معیشت کی سمت کا تعین کیا گیا۔ اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ دوست ممالک کو پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر راضی کیا گیا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک نے بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ شرح سود میں ناصرف خاطرخواہ کمی ہوئی بلکہ مہنگائی بھی سنگل ڈیجیٹ پر آگئی۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ممکن ہوسکی۔ عوام کی پچھلے سات سال میں پہلی بار حقیقی اشک شوئی ہوتی نظر آئی۔ برآمدات بڑھیں جب کہ درآمدات میں کمی ہوئی۔ اب بھی ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے بڑی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں کہ ٹیکس آمدن بڑھ سکے اور اس عوام پر بوجھ میں کمی آسکے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گزشتہ روز کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوگیا، مہنگائی میں نمایاں کمی آرہی ہے، کوشش ہے شرح سود کو سنگل ڈیجیٹ میں لے آئیں، ملک کے مسائل زیادہ ہیں، ملک خیرات سے نہیں ٹیکسز سے چلتے ہیں، ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں کہ سب ایک دم ٹھیک ہوجائے۔ معاشی بقا کا انحصار زائد پیداوار اور برآمدات پر ہے، اشرافیہ کے طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں نمایاں کمی لائی گئی ہے، ہمیں پائیدار معاشی استحکام کی طرف بڑھنا ہے، ہمیں برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کسی کے سہارے پر نہیں خود ترقی کرکے آگے آئے ہیں، ہم اسلام آباد میں دربار لگاکر نہیں بیٹھیں گے، ہم بجٹ تجاویز لینے کے لیے لوگوں کے پاس جائیں گے، لوگ بجٹ کے دنوں میں اسلام آباد میں آکر بیٹھ جاتے ہیں جو غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا ہم ہوائی باتیں نہیں کررہے جو کہتے ہیں کرکے دکھارہے ہیں، شرح سود جیسے جیسے کم ہوگی کاروباری لوگوں کے لیے اچھا ہوگا، شرح سود کم ہوگی تو ہم بہتری کی جانب جائیں گے، 2025ء میں ہم ملکی معیشت کو لے کر مزید بہتری کی جانب جائیں گے، شرح سود کم ہوتی جائے گی اور سنگل ڈیجیٹ کی طرف جائے گی۔ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا مسائل زیادہ ہیں، جادو کی چھڑی نہیں کہ سب ایک دم ٹھیک ہوجائے، معاشی اصلاحات کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے تجاویز لے رہے ہیں، ہمیں پائیدار معاشی استحکام کی طرف بڑھنا ہے، ملک کی خاطر سب اکٹھے ہوجائیں، ملک کی خاطر چارٹر آف اکانومی سمیت تین چار چیزوں پر اکٹھے ہوجائیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کیلئے سب کو ایک پیج پر آنا پڑے گا، مثبت پالیسیوں کی وجہ سے معیشت بہتر ہوئی، ہمارے اختلافات ہوسکتے ہیں مگر ملک کی خاطر اکٹھا ہونا پڑے گا، یہاں کوئی سیاسی بات نہیں کرنا چاہتا، چارٹر آف اکانومی پر سب اکٹھے ہوجائیں، ملک ہے تو ہم ہیں۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات لا رہے ہیں، ہم لوگوں کو بدل رہے ہیں اور بدل چکے، ہم اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن کی طرف جارہے ہیں، ہمارے پاس سب کا ڈیٹا موجود ہے، میرا ڈیٹا ایف بی آر کے پاس ہے، میرا ڈیٹا نادرا اور ٹیکس اتھارٹی کے پاس موجود ہے، اگر کمی بیشی ہے تو یہ لیکیج ہے، یہ لیکیج ایسی ہے کہ بوجھ سیلری کلاس اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری پر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلری کلاس پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے، سب کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، ٹیکسیشن معاملے میں لیکجز کو بند کررہے ہیں، چاہتے ہیں ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ نہ پڑے، جو ٹیکس نہیں دے رہے ان کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا 9سے 10فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ہے، ہمسایہ ملک 18فیصد پر ہے، ہم نے جی ڈی پی ساڑھے 13فیصد پر لانا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ملک خیرات سے نہیں ٹیکسز سے چلتے ہیں، ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے حکومت سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ ٹیکس نادہندگان کو اپنی ماضی کی ناپسندیدہ مشق ترک کرنی ہوگی۔ 5فیصد اشرافیہ کے لوگ جو ٹیکس ادائیگی سے بچتے چلے آرہے ہیں، اُنہیں حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ازخود ٹیکس ادائیگی کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو حکومت اور متعلقہ ادارے کو ان کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے انہیں باقاعدگی سے محصولات کی ادائیگی کا پابند بنانے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں۔

 

شذرہ۔۔۔۔۔
جنوبی کوریا: طیارہ حادثہ، 179 مسافر ہلاک
مسافر طیارے ایک سے دوسرے ملک آمدورفت کا تیز ترین ذریعہ ہیں، لیکن بعض اوقات فضائی سفر حادثے کے نتیجے میں ہولناک یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک میں طیاروں کو حادثات پیش آتے رہے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں آخری بار مئی 2020میں کراچی میں طیارے کا خوف ناک حادثہ پیش آیا تھا، جس میں 97مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ مسافر عید کی خوشیاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانے کے لیے آرہے تھے، لیکن اس عید کی خوشیاں ان کے لواحقین کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے روگ میں بدل گئیں۔ گو اس سے قبل بھی کئی طیاروں کو حادثات پیش آئے تھے، لیکن ساڑھے چار سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس حادثے کی یادیں دلوں کو اُداس اور آنکھوں کو اشک بار کر ڈالتی ہیں۔ گزشتہ روز ایسا ہی ایک طیارے کو بڑا حادثہ جنوبی کوریا میں پیش آیا ہے، جس میں 179مسافر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔جنوبی کوریا کے موآن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اتوار کو ایک مسافر طیارہ رن وے سے اُتر کر حفاظتی دیوار سے جاٹکرایا، جس کے نتیجے میں کم از کم 179 افراد ہلاک ہوگئے۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کے جنوب مغربی شہر موآن میں ایک مسافر طیارے کو لینڈنگ کے دوران پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں 179 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جنوبی کوریا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب جیجو ایئر کی پرواز سی 22167 تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے 175 مسافروں اور عملے کے 6 ارکان کو لے کر مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے ملک کے جنوب میں واقع ایئرپورٹ پر لینڈ کررہی تھی۔ وزارت نے قریباً تین دہائیوں میں جنوبی کوریا کی ایئرلائن کے سب سے تباہ کن فضائی حادثے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ موآن فائر چیف لی جنگ ہیون نے بریفنگ میں بتایا کہ عملے کے دو ارکان، ایک مرد اور ایک خاتون کو جلتے ہوئے طیارے کے ٹیل سیکشن سے بچالیا گیا ہے۔ مقامی پبلک ہیلتھ سینٹر کے سربراہ نے بتایا کہ عملے کے دو افراد کو شدید چوٹیں آئی ہیں اور وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ مقامی میڈیا کی جانب سے شیئر کردہ ویڈیو میں جڑواں انجن والے طیارے کو رن وے سے پھسلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جس کے بعد ممکنہ طور پر لینڈنگ گیئر میں خرابی کے باعث وہ حفاظتی باڑ سے ٹکرا کر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق بنکاک سے واپس آنے والے مسافر طیارے کے لینڈنگ گیئر میں فنی خرابی بتائی گئی ہے۔ موآن فائر چیف لی جنگ ہیون کا کہنا ہے کہ تفتیش کار پرندوں کے حملے اور موسمی حالات کو ممکنہ عوامل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے جنوبی کوریا میں طیارہ حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہ حادثہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

جواب دیں

Back to top button