
تحریر : سی ایم رضوان
بالآخر حکومت پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان گزشتہ روز پیر کو مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔ یہ عام خیال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ مذاکرات ملکی حالات کو استحکام کی طرف لے جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے شرپسند عناصر بھارتی میڈیا کے سوا ہر کوئی ان کے نتائج کا خیر مقدم کرے گا۔ یاد رہے کہ تازہ ترین پیش رفت اسپیکر ایاز صادق کے مشورے پر سامنے آئی تھی، جن سے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے رابطہ کیا تھا۔ اور ایاز صادق نے حکومتی کمیٹی کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے پیر کو اپنے چیمبر میں اجلاس طلب کیا تھا جبکہ شہباز شریف نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اسپیکر نے کہا کہ ’’ وزیراعظم کا مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کا اقدام خوش آئند ہے۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو نیک نیتی سے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اسپیکر کے دفتر کے دروازے اراکین کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی پیش رفت حاصل کی جا سکتی ہے‘‘۔شہباز شریف نے بات چیت کے لئے جو آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، خالد مقبول صدیقی اور چودھری سالک حسین شامل ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کی کمیٹی میں عمر ایوب خان، علی امین گنڈا پور، سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر، حامد رضا، حامد خان، اور علامہ راجہ ناصر عباس شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے رواں ماہ کے اوائل میں ٹیم تشکیل دی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی تھی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں قومی یکجہتی اور قومی مفادات کو مقدم رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب پاکستانی فوج نے ہفتے کو اعلان کیا تھا کہ نو مئی 2023ء کے واقعات میں ملوث 25افراد کو فوجی عدالت میں دو سے 10سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی نے فوجی عدالتوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث افراد کو سنائی گئی سزاں کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دے کر چیلنج کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قومی ہم آہنگی کے لئے اسپیکر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات میں قومی یکجہتی اور قومی مفادات کو مقدم رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے وجود کی وجہ ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ تمام معاملات کم سے کم وقت میں حل ہو جائیں گے۔ جبکہ سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی وارننگ دی تھی۔ مذاکرات کے لئے بانی پی ٹی آئی نے اپنے دو مطالبات سامنے رکھے تھے۔ ایک زیر سماعت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دوسرے 9مئی واقعات اور 26نومبر کو پی ٹی آئی کے مظاہرین پر کریک ڈائون کی عدالتی تحقیقات۔ سابق وزیراعظم نے بصورت دیگر سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی وارننگ دی تھی۔ حکومتی فریق اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر یہ کہتے ہوئے اپنے پائوں گھسیٹ رہا تھا کہ مذاکرات پیشگی شرائط کے ساتھ اور کسی خطرے کے سائے میں نہیں ہو سکتے۔ سیاسی ماہرین نے شکوک و شبہات اور امید کے امتزاج کے درمیان، اس پیش رفت کی تعریف کی ہے لیکن اعتماد سازی کے فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو تعطل کو ختم کرنے اور استحکام کے لئے حقیقی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اکثر سیاسی ماہرین نے ایسے اقدامات پر زور دیا ہے جس سے بیان بازی کو کم کیا جا سکے اور سیاسی گرما گرمی کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ باضابطہ بات چیت کا آغاز ایک اہم موڑ ہے اور سیاسی منظر نامے کو پرسکون کرنے کے لئے تمام تر کوششیں کی جانی چاہئیں۔
حکومت اور اسٹبلشمنٹ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئی کیوں مجبور ہوئی، اس حوالے سے بھارتی میڈیا کا دعویٰ بڑا مضحکہ خیز ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکمران جماعت‘‘ نے بالآخر پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات مان لئے ہیں۔ اپنے تجزیہ میں بھارتی میڈیا نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا حکومت پاکستان سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں اپنا موقف نرم کر رہی ہے؟ کیا ان کی جلد رہائی ممکن ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بھارتی میڈیا نے وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور جو اسلام آباد کے احتجاج میں ایک دوسرے کے مخالف کھڑے تھے، ان کے بغلت گیر ہونے کی تصاویر سامنے آنے کے بعد اٹھائے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے ان تصاویر کو دو متحارب کیمپوں کے درمیان برف پگھلنے اور ہوا کے رُخ کی تبدیلی کے اشارے کے طور پر لیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کیٹ درمیان پیر کو مذاکرات کا پہلا دور خوشگوار انداز میں ہوا، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کی رہائی سمیت متعدد متنازع معاملات کو حل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہ چلانے کا معاملہ میز پر ہے اگرچہ کسی بھی فریق نے اپنے کارڈز شو نہیں کئے ہیں اور پی ٹی آئی سے باقاعدہ تحریری مطالبات مانگے گئے ہیں، تاہم، خیال یہی ہے کہ عمران کی رہائی سرفہرست مطالبات میں شامل ہے۔ گزشتہ روز ہوئی ملاقات کے پہلے دور کا مقصد حریف کیمپوں کے درمیان تنا کو کم کرنا تھا اور اگلا دور دو جنوری کو شیڈول کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بات چیت کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکمران جماعت‘‘ نے بالآخر پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات مان لئے ہیں۔ تاہم، بڑھتا ہوا بین الاقوامی دبا اس طویل مدت سے التوا کے شکار مذاکرات کی وجہ ہے۔ اگرچہ ملکی عوامل، جیسا کہ جاری سیاسی عدم استحکام اور ایک مستحکم جمہوری عمل کی ضرورت نے اس مصالحتی اقدام کو آگے بڑھایا ہے، تاہم بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اٹھائی جانے والی آوازوں، بشمول انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان کی رہائی کے لئے دبائو میں کردار ادا کیا ہے۔ ماضی قریب میں عمران خان کی رہائی کے لئے دنیا بھر سے بااثر لوگوں کے بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینیل سے لے کر برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے اور برطانیہ کے سابق اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن تک سبھی نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کالز نے پاکستان اور بیرون ملک عمران خان کے حامیوں کی خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ پی ٹی آئی نے گزشتہ ہفتے اپنے آفیشل ’’ ایکس‘‘ اکائونٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’’ عمران خان کی رہائی کے لئے عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو کہ جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں من مانی اور سیاسی طور پر نظربند ہیں۔ دنیا بھر کی بااثر آوازیں کہہ رہی ہیں کہ عمران خان کو آزاد کرو‘‘۔ سکاٹ لینڈ کے سابق وزیر اعظم حمزہ یوسف نے گزشتہ ہفتی آکسفورڈ یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کی ’’ مسلسل قید‘‘ سے بہت پریشان ہیں۔ سابق امریکی خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے 19دسمبر کو عمران خان کی رہائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’ پاکستان میں تبدیلی کا وقت ہے‘‘۔ انہوں نے ایکس پر کی گئی اپنی پوسٹ میں کہا کہ پاکستانی حکومت پابندیوں اور سفارتی دبائو کی مستحق ہے کیونکہ اس نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دردی سے استعمال کیا یہاں تک کہ ان کا قتل عام کیا اور وہ عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لئے سیاسی مقاصد کے لئے قانونی نظام کا غلط استعمال کر رہی ہے‘‘۔ خلیل زاد، جو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان کے ساتھ قریبی تعلق کے لئے جانے جاتے ہیں، انہوں نے نومبر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے تناظر میں عمران خان کی حراست کی وضاحت کرے۔ مزید برآں عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کی اکتوبر میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے پرجوش درخواست کے بعد، برطانیہ اور امریکہ میں کئی سرکردہ شخصیات نے ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی۔ ان میں برطانوی بزنس میگنیٹ رچرڈ برانسن، مخیر جیفری اسکول اور امریکی وبائی امراض کے ماہر لارنس بریلینٹ شامل تھے۔ ستمبر میں کم از کم 60امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو ڈالیں۔ اس اقدام پر اسلام آباد نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط میں قانون سازوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والی آوازیں کثیرالجہتی تنظیموں اور حقوق کی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹینشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اٹھائی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے یاوا گوئی کرتے ہوئے کہا کہ جولائی میں شائع ہونے والی ایک رائے میں ورکنگ گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عمران خان کی حراست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی گرفتاری کی ’’ کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے‘‘ ۔ ایمنسٹی نے ستمبر میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ ’’ عمران خان کو صوابدیدی پری ٹرائل حراست سے فوری رہا کیا جائے‘‘۔ عمران خان جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انہیں ابتدائی طور پر مئی 2023ء میں اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے 2018ء میں اپنے عہدے کے دوران رشوت کے طور پر تقریباً 25ملین امریکی ڈالر کی زمین حاصل کی۔ عمران خان کو تین دن کی حراست کے بعد ضمانت مل گئی، لیکن اس دوران ان کے حامیوں نے پرتشدد مظاہرے کیے، فوج اور ریاستی تنصیبات کو آگ لگائی، اس کے دوران آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ عمران خان کو اب انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جو مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد بدامنی سے منسوب کیا گیا بھارتی میڈیا کے مطابق جہاں عمران خان کی پارٹی ’’ پی ٹی آئی‘‘ ان کی رہائی کے مطالبے پر ثابت قدم ہے، وہیں حکومت نے اس پر عمل کرنے کا اشارہ بہت مبہم انداز میں دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اندرونی اور عالمی دونوں طرح کا دبا ہے جس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر دیگر چیزوں کے علاوہ عمران خان کی جیل سے رہائی پر بات کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بھارتی میڈیا اور پی ٹی آئی کا پراپیگنڈا ایک ہی ہے اب دیکھنا یہ پاکستانی ریاست اس سارے دھوکہ دہی کے عمل شکار ہو جاتی ہے یا ملک کے مفادات کا تحفظ کر پاتی ہے۔