پاکستان کے دفاعی اثاثے اور امریکی پابندیاں

تحریر: کنول زہرا
امریکہ، پاکستان کے دفاعی اثاثوں پر 8 بار پابندی عائد کرچکا ہے مگر العمد اللہ، پاکستان محدود وسائل میں رہ کر اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے سرگرم ہے، اپنی سر زمین کا دفاع ہر ریاست کا حق ہے لہذا پاکستان بھی اپنے دفاعی اثاثے بنانے ان کا تجربہ کرنے میں خود مختار اور آزاد ریاسے ہے۔
امریکہ نے پاکستان کے دفاعی نظام پر پہلی پابندی 1998 میں لگائی، اس سال پاکستان نے اٹیم بم بنایا تھا اور دو دھماکے کرکے سرحد پار دشمن کو باور کروایا تھا کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔
پھر تواتر کے ساتھ یعنی 2003، 2004، 2006،2011، 2020، 2022، 2023، اور 2024 میں بھی امریکہ کی جانب سے پاکستان کے دفاعی نظام پر بے جا تنقید کی گئی۔
امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے 18 دسمبر کو ایک اعلامیے میں جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
امریکہ کی جانب سے پاکستانی اداروں پر حالیہ پابندیاں ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت لگائی گئی ہیں، جس میں ایسے افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، جو ہتھیاروں اور ان کے ترسیلی ذرائع کے پھیلاؤ میں ملوث ہوں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق پابندیوں کا شکار ہونے والے ادارے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی)، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، افیلیئٹس انٹرنیشنل، اور راک سائیڈ انٹرپرائز ہیں۔
ان اداروں، جو بنیادی طور پر اسلام آباد اور کراچی میں واقع ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے لیے خصوصی آلات اور مواد کی فراہمی میں کردار ادا کیا ہے۔
۔ نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) کو پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام، بشمول شاہین سیریز بیلسٹک میزائلز کی بہتری کا بنیادی ذمہ دار بتایا گیا ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ این ڈی سی نے میزائل لانچنگ سپورٹ اور ٹیسٹنگ آلات کے لیے خصوصی گاڑیوں کے چیسز حاصل کیے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے شہر ٹیکسلا میں واقع این ڈی سی تقریباً 30 سال پرانا ادارہ ہے جو دہرے مقاصد یعنی ’سول و ملٹری ٹیکنالوجیز‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۔ اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ پر این ڈی سی کو مختلف قسم کا سامان فراہم کرنے اور میزائل پروگرام میں مدد دینے کا الزام ہے۔
۔ ایفیلیٹس انٹرنیشنل پر این ڈی سی اور دیگر اداروں کے لیے میزائل سے متعلق اجزا کی خریداری میں معاونت کا الزام ہے۔
۔ راک سائیڈ انٹرپرائز پر پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے لیے اہم آلات فراہم کرنے کا الزام ہے۔
پاکستان نے 19 دسمبر کو امریکی پابندیوں کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کا سٹریٹجک پروگرام 24 کروڑ عوام کی جانب سے اپنی قیادت کے لیے مقدس امانت ہے۔ جو سیاسی جماعتوں کے تمام حلقوں میں بلند ترین مقام رکھتی ہے اور کسی صورت بھی متاثر نہیں ہو سکتی۔‘ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں کو "امتیازی سلوک” کو واضح کرتی ہیں، لہذا اس وجہ سے یہ ” بے معنی” ہیں کیونکہ دفاعی شعبے میں ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہے، پاکستان نے ماضی میں پابندیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا اور کامیاب ہو تو انشااللہ آگے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے دفاعی نظام پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان اسرائیل کی ایما پر کیا جاتا ہے،امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح پاکستان پر زور ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کروالے گا، جو کہ ناممکن ہے، امریکہ کو آج تک فلسطین میں ہوتا اسرائیل ظلم کیوں نہیں نظر آرہا ہے، جہاں روزانہ اسرائیلی میزائل قیامت بپا کرتے ہیں۔
’وائٹ ہاؤس کی جانب سے پاکستان میزائل کو لیکر یہ مضحکہ خیز پات سامنے آئی کہ پاکستان کے طویل فاصلے والے میزائل امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں، ایک ترقیافتہ ریاست سے اس قسم کے احمقانہ بیان کی توقع نہیں تھی، بہرحال بطور پاکستانی مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ گورا، ہماری جوہری طاقت سے خوفزدہ ہے۔
دوسری جانب امریکہ بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے لئے پاکستان کے نیوکلئیر سسٹم پر پابندیاں عائد کرتا ہے، پاکستان جانتا ہے کہ امریکی پابندیاں زبانی جمع خرچ ہیں کیونکہ امریکہ اس قسم کی پابندیاں عائد کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتا ہے، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان اپنے دفاع کو مضبوط تر بنانے میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے دشمن پر خوف طاری ہے۔