
جگائے گا کون؟
تحریر سی ایم رضوان
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مصروف ہے۔ ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں۔ ریاستی ادارے پولیٹیکل انجینئرنگ میں مصروف ہوں گے تو ریاست کا یہی حال ہوگا، اگر آئین پر عمل ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے۔ یہ ریمارکس سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر ملزم کو گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے دیئے، قتل کیس کی سماعت کے دوران ججز نے اہم ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم ایک دن پرائم منسٹر ہائوس تو دوسرے دن جیل میں ہوتا ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ کتنے دن وزیراعظم رہنا ہے۔ سارے ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں، ریاست کی کیا بات کریں؟ تین وزرائے اعظم مارے گئے، لوگوں کو اداروں پر یقین نہیں، لوگ چاہتے ہیں تمام کام سپریم کورٹ کرے۔ پاکستانی سیاست و حکومت میں عدلیہ کا کردار ایسا رہا ہے کہ ہر دور اور ہر موڑ پر یہ کہنا پڑا ہے کہ اگر عدلیہ جمہوریت پسند ہوتی تو ہمیں آمریت کا اس قدر عذاب نہ سہنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے مسلسل آج تک عدلیہ کا کردار ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور ہر حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ سوال زیادہ شدومد کے ساتھ سامنے آتا ہے لیکن پاکستانی تاریخ میں اس بار یہ سوال حکومت کی تبدیلی کے بعد نہیں بلکہ جسٹس اظہر من اللہ کے ریمارکس سے اٹھایا جا رہا ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی میں خود عدلیہ کا کردار کتنا اہم اور متنازعہ رہا ہے۔ اس سے جہاں عدلیہ کی اس نئی سمت اور رجحان کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب عدلیہ کے لئے حکومتوں کی تبدیلی شجر ممنوعہ ہوتی جا رہی ہے۔ البتہ اس کی اپنی صفوں میں ہونے والی تبدیلی زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے۔ پچاس کی دہائی میں گورنر جنرل پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل سے متعلق جسٹس منیر کے فیصلے، نظریہ ضرورت اور آمروں کے وضع کردہ پی سی او کے تحت ججوں کے حلف اٹھانے جیسے معاملات نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں نہ صرف بہت سے سوالات بلکہ شکوک و شبہات اور تحفظات پیدا کئے تھے۔ جس نے خود عدلیہ کو عوام اور دانشور طبقے کے سامنے دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا تھا چونکہ تاریخ کسی کے ساتھ رو رعایت کرتی ہے اور نہ ہی مورخ کسی کا دفاع کر سکتا ہے اس لئے عدلیہ تا حال الزامات کے کٹہرے میں ہی کھڑی ہے۔ البتہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے سابق فوجی آمر کو استعفیٰ دینے سے انکار اور پھر وکلاء تحریک نے پاکستان میں عدلیہ کا ایک نیا رخ متعارف کرایا تھا اگرچہ یہ ایک چیف جسٹس کا انفرادی فعل تھا اور اگر انہیں وکلائ، ججوں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت نہ ملتی تو یہ ایک انفرادی فعل ہی رہتا اور اس سے آگے کچھ نہ ہوتا۔ کیونکہ ماضی میں بھی ہماری عدلیہ میں انفرادی جرات کی مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے جسٹس مرشد نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران اپنے عہدہ جلیلہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ علاوہ ازیں مشرقی پاکستان ہائی کورٹ ہی کے ایک جج نے جنرل یحییٰ خان کے نامزد کردہ نمائندے جنرل ٹکا سے گورنر مشرقی پاکستان کے عہدے کا حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ بعض ججوں نے اطلاعات کے مطابق صدر ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے بھی انکار کیا تھا۔ تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ ان ججوں کو حلف کے لئے بلایا ہی نہیں گیا تھا۔ اب یہ تاریخ کا ایک انتہائی نازک راز ہے کہ انہوں نے حلف لینے سے انکار کیا تھا یا انہیں بلایا ہی نہیں گیا تھا۔ جس پر واقفان حال کو اصل سچ اب عوام کے سامنے رکھ دینا چاہئے۔ اس کے برعکس صدر پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے تین خفیہ اداروں کے سربراہوں کے سامنے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا اور ان پانچوں میں سے کسی نے بھی تاحال اس کی تردید نہیں کی۔ جس کے بعد صدر انہیں معطل کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ماضی سے مختلف تھا۔ سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی اور وکلاء چیف جسٹس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ جبکہ عدلیہ نے بھی کھل کر چیف جسٹس کا ساتھ دیا اور آخر کار وہ سپریم کورٹ کے فل بینچ کے حکم پر بحال ہوئے۔ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد عدلیہ کی فعالیت پہلی بار عملی شکل میں سامنے آئی اگرچہ ان کے سابقہ دور میں اس کی بازگشت سنائی دے رہی تھی لیکن ان کی بحالی کے بعد عدلیہ کا زیادہ طاقتور اور موثر روپ نظر آیا۔ اس زمانے میں عدلیہ کے فیصلوں سے جہاں زرداری حکومت تنگ تھی وہیں منہ زور افسر شاہی کے لئے بھی مشکلات تھیں۔ عدلیہ کے از خود نوٹسز کے نتیجے میں جہاں عوام کو ریلیف مل رہا تھا وہاں طاقتور ادارے بھی پریشان تھے۔ چنانچہ افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے افراد اور اداروں نے سکھ کا سانس لیا۔ ساتھ ہی جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بطور چیف جسٹس چارج سنبھالنے کے بعد ایک تبدیلی محسوس ہوئی۔ پہلی تبدیلی تو یہ تھی کہ نئے چیف جسٹس نے بات بات پر از خود نوٹس لینے کی حوصلہ شکنی کی۔ دوسرے انہوں نے جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرح دوران سماعت کیسوں کے دوران ریمارکس دینے کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ بڑی حد تک وہ رویہ اپنایا جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ جج سماعت کے دوران یا میڈیا میں نہیں بلکہ اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے باقی ججوں نے بھی نہ صرف اسے نوٹ کیا بلکہ اس کی تقلید بھی کی۔ اس صورتحال میں یہ بحث زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ کیا ہماری موجودہ عدلیہ مستقبل قریب میں عدالتی فعالیت کا رویہ اپنائے گی یا صرف فیصلوں میں بولنے اور زیادہ سنجیدہ اور مدبرانہ روش اختیار کرے گی۔ اس سلسلے میں دانشوروں کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں اس وقت دونوں طرح کے نقطہ نظر موجود ہیں ججوں کی ایک تعداد جسٹس افتخار کے طرز انصاف کی حامی ہے اور دوسری عدلیہ کی فعالیت کے بجائے اس بات کی حامی ہے کہ فیصلے بولنے چاہئیں۔ یہ دونوں نقطہ نظر عوام میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ پہلے نقطہ نظر کا حامی ہے تو دوسرا طبقہ دوسرے طریقہ کار کا۔ لیکن ایک بات پر تمام حلقے متفق ہیں کہ آج کی عدلیہ 76سالہ سابقہ عدلیہ سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا ہے۔ آج کے جج آزاد اور بے خوف ہیں۔ وہ عدالتی معاملات میں انتظامی مداخلت نہیں ہونے دیں گے اور عدلیہ کی آزادی اور وقار کے لئے سینہ سپر نظر آئیں گے۔
خوش قسمتی سے اکا دکا آوازوں کے سوا ملک کی سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی، وکلاء اور میڈیا عدلیہ کے سابقہ کردار کی بنیاد پر اس کی ورکنگ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا ایشوز کی نشان دہی کر رہا ہے۔ انتظامیہ اور حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کر رہا ہے جمہوریت کے خلاف سازشوں کو سامنے لا رہا ہے۔ حکمرانوں کے پوشیدہ مقاصد کو طشت از بام کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سب کے سامنے رکھ رہا ہے۔ یہی صورتحال رہی اور میڈیا ذمہ داری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتا رہا تو سیاسی جماعتیں اختلاف کے باوجود عدالتی فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرتی رہیں تو دس سال بعد کا پاکستان ایک مختلف اور بہتر پاکستان ہو گا۔
آج عدلیہ حکمرانوں اور موثر افراد کی شاکی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ماضی کی طرح کھل کھلا کر جمہوری روایات کے خلاف فیصلے کرنے میں دشواری نظر آ رہی ہے۔ ریاست جہاں مناسب سمجھتی ہے گرفت بھی کر رہی ہے اور اس کے غلط فیصلوں کی قلعی بھی کھل رہی ہے۔ عدلیہ پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور اس کو سابقہ خطوط سے ہٹ کر کام کرنا پڑ رہا ہے خاص طور پر وہ جج جو ایک پارٹی کی حمایت میں اپنا عدالتی کردار تک دائو پر لگانے کے درپے ہیں ان کو مستقبل میں اپنے مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے اس لئے وہ ریاست پر تنقید کرنے کا حربہ آزما رہے ہیں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ کسی ادارے کے ساتھ ٹکرا کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ لیکن اس کا مظاہرہ عدلیہ نے صرف پرویز مشرف کیس میں کیا تھا۔ عدالت نے سابق صدر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا تھا لیکن ان کے پیش ہونے کے فوری بعد انہیں بیرون ملک علاج کے لئے جانے سے متعلق اپنے ریمارکس میں پورے وقار کے ساتھ ملزم کو اس کے جائز حقوق دینے کی بات کی تھی۔
امید ہے کہ عدلیہ مستقبل قریب میں گورننس اور کرپشن کے ایشو پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر ے گی۔ لیکن اسے مستقلاً سرگرم رہنا ہو گا۔ مئی 2011ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا بے باک تجزیہ کرنا ہو گا۔ ماتحت عدلیہ میں کرپشن کی شکایات کو دور کرنا ہو گا۔ عوام کو انصاف کی سستی فراہمی کے لئے خود کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی من مانیاں روکنا ہوں گی۔ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے حکومت اور اداروں پر دبا بڑھانا ہو گا اور ہزاروں زیر التواء مقدمات کو جلد نمٹانا ہو گا۔ منہ زور بیوروکریسی اور بھاری مینڈیٹ والے حکمرانوں کو عدلیہ ہی کنٹرول کر سکتی ہے۔ جبکہ حکمرانوں کی دبی دبی خواہش یہ ہے کہ وہ عدلیہ کو کنٹرول کر لے۔ عدلیہ کے لئے ایک اہم چیلنجز یہ بھی ہے کہ بار اور بنچ کے تعلقات میں توازن رہے۔ جبکہ وکلاء تحریک کے بعد نوجوان وکلاء جس طرح بے قابو ہو رہے ہیں انہیں بھی حدود و قیود کا پابند بنانا ہو گا۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے چیلنجز موجودہ عدلیہ کو درپیش ہیں اور عوام کی یہ جائز خواہش اور دعا ہے کہ عدلیہ ان چیلنجز سے وقار اور تدبر کے ساتھ سرخرو و کامیاب ہو۔
عدلیہ کے حوالے سے موجودہ حکومت کے رویے کے بارے میں مختلف تحفظات بھی رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کا رویہ بھی سابقہ حکومت کی طرح غیر آئینی طریقوں پر مشتمل ہے۔ اس نے پہلے دن سے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی شروع کر رکھی ہے کیپٹن شجاعت عظیم کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کے باوجود انہیں دوبارہ اس عہدے پر تعینات کیا گیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے حکومت عدلیہ سے تعاون کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
پیمرا، نادرا، اور پی سی بی کے سربراہوں کی من پسند تعیناتیاں کی گئیں۔ میگا پراجیکٹس میں کرپشن ہے اور میلے ٹھیلوں پر قومی خزانہ لٹایا جا رہا ہے۔ عدلیہ کے لئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومت کو آئینی و قانونی حدود میں رہنے کا پابند بنائے۔ یہ اقدام حکمرانوں کو پسند تو نہیں آئے گا لیکن اس ملک کو قانون و آئین کے ٹریک پر لانے کے لئے ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے۔