Column

ترقی کی دوڑ میں ہمارا مقام

ڈاکٹر محمد ریاض علیمی
دنیا روز بروز ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی نئی منازل طے کر رہی ہے۔ ہر روز نت نئی ایجادات اور سہولتیں انسانی زندگی کو آسان تر بنا رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، ڈیجیٹل معیشت اور خلائی تحقیقات جیسے شعبے ترقی یافتہ ممالک کی پہچان بن چکے ہیں۔ امریکہ، چین، جاپان اور یورپ کے ممالک ایسے منصوبے بنا رہے ہیں جو انسانی زندگی کو صدیوں آگے لے جانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ہم جیسے ممالک اب بھی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکام ہیں اور عوام کو جدید دور کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے بجائے چھوٹے موٹے مسائل میں الجھا کر رکھا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے ترقی کے سفر کا آغاز ایک مضبوط تعلیمی نظام، سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی اور آزاد سوچ کے فروغ سے ہوا۔ مثال کے طور پر صنعتی انقلاب کے بعد یورپ نے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔ جاپان جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، تعلیم اور تحقیق کے میدان میں سرمایہ کاری کے ذریعے آج دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ جنوبی کوریا جو ماضی میں ایک غریب ملک تھا، آج ٹیکنالوجی میں عالمی رہنما بن چکا ہے۔ ان ممالک نے اپنی عوام کو آزادی دی، تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیا اور اپنے سسٹمز کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارا سفر ایک جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ جہاں دنیا مصنوعی ذہانت کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے، ہم وی پی این کے ذریعے ایک تصویر اور ویڈیو ڈائون لوڈ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے نام پر ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جو عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کرنے اور مختلف ویب سائٹس پر پابندیاں لگانے کے عمل نے عام صارفین کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ دنیا کی آن لائن معیشت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم ایسی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں جو ہمیں مزید پیچھے دھکیل رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے آزادی اظہار کو ترقی کی بنیاد بنایا۔ انہوں نے اپنے عوام کو معلومات تک آزادانہ رسائی فراہم کی، تاکہ وہ دنیا کے بدلتے رجحانات کو سمجھ سکیں اور ان کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔ لیکن ہمارے ملک میں آزادی اظہار کو کنٹرول کرنے کی کوششوں نے ترقی کے عمل کو شدید متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب دنیا ای لرننگ کے ذریعے اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کر رہی تھی، ہم انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی شکایات کر رہے تھے۔ جب دنیا فری لانسنگ پلیٹ فارمز کے ذریعے معیشت کو مضبوط کر رہی تھی، ہم فائیور اور دیگر پلیٹ فارمز کی بندش پر بحث کر رہی تھے۔
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ترقی تب ممکن ہے جب معاشرہ آزاد ہو، علم تک رسائی آسان ہو اور ٹیکنالوجی کو مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے لیے ایک سبق ہیں۔ وہ اپنے وسائل کو ضائع کرنے کے بجائے ان کا موثر استعمال کرتے ہیں۔ وہ عوام کو سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ترقی کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور غیر موثر حکمت عملی ہے۔ یہاں ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن کا مقصد وقتی مسائل کا حل نکالنا ہوتا ہے لیکن وہ طویل المدتی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ پر پابندیاں لگا کر مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں طلبہ، فری لانسرز، اور کاروباری افراد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو از سر نو مرتب کریں۔ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایک جامع اور طویل المدتی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق کو فروغ دینا ہوگا۔ عوام کو ایسے مواقع فراہم کرنے ہوں گے جن سے وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ترقی کے لیے آزادی، علم اور وسائل کا درست استعمال ضروری ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنی پالیسیوں کو بہتر بنانا ہوگا بلکہ اپنے عوام کو وہ سہولتیں فراہم کرنی ہوں گی جو انہیں عالمی معیار کے مطابق آگے بڑھنے کے قابل بنائیں۔ بصورت دیگر ہم اسی دائرے میں گردش کرتے رہیں گے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button