روزگار کے مواقع بڑھانے میں حکومت کا احسن کردار
رواں سال فروری میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں موجودہ اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس کی سربراہی کی بھاری بھر کم ذمے داری وزیراعظم شہباز شریف کے کاندھوں پر آئی۔ اُس وقت ملکی معیشت کی صورت حال کسی طور تسلی بخش نہیں تھی۔ اس کا پہیہ رُکا ہوا تھا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ صنعت کار اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور تھے۔ چھوٹے کاروباریوں کے کاروبار تباہ ہوکر رہ گئے تھے۔ اس پر طرّہ تاریخ کی بدترین مہنگائی کا دور دورہ تھا۔ ہر شے کے دام آسمان سے باتیں کررہے تھے۔ غریب عوام کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد مشکل تھا۔ 2019ء سے شروع ہونے والا ان کا مشکل دور دن بہ دن مزید کٹھن ہورہا تھا، جو گرانی 2035۔40 میں آتی، اناڑیوں کی ناقص حکمت عملیوں اور پالیسیوں کی وجہ سے وہ 2022ء میں ہی عوام پر مسلط کردی گئی تھی۔ مایوسی کے اندھیرے ہر سُو پھیلے ہوئے تھے۔ غریبوں کی زندگی سب سے زیادہ اجیرن تھی۔ بے روزگاری کا طوفان بے شمار گھرانوں میں برپا ہوکر تباہیاں مچارہا تھا۔ اس گمبھیر مسئلے کی وجہ سے خودکشی کے سلسلے تھے۔ بے یقینی کی صورت حال تھی۔ عوام میں خاصی مایوسی پائی جاتی تھی۔ کاروبار کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہ تھی۔ بہت سے شعبوں میں تنزلی مقدر تھی۔ درآمدات بڑھ اور برآمدات مسلسل گھٹ رہی تھیں۔ ان حالات میں اقتدار کانٹے کی سیج سے کم نہ تھا، لیکن شہباز شریف نے اپنی محنت، لگن اور شبانہ روز ریاضتوں کے طفیل ناممکن کو ممکن کر دِکھایا۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحات کی جانب خصوصی توجہ دی۔ حکومتی آمدن بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات یقینی بنائے۔ دوست ممالک کے دورے کیے، اُنہیں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ اُن کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر دوست ممالک پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریاں کررہے ہیں، جن سے ناصرف انفرا اسٹرکچر کی صورت حال بہتر ہورہی، بلکہ روزگار کی راہیں بھی کھل رہی ہیں۔ اب کوئی بے روزگار نہیں رہے گا۔ وزیراعظم نے بہت سے شعبہ جات کی تنزلی کو ترقی میں بدل ڈالا ہے۔ شعبہ زراعت اور آئی ٹی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور ان میں پاکستان کو کامیابی کی معراج پر پہنچانے کا عزم ہے۔ حکومتی اقدامات کے طفیل مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر آگئی ہے، بہت سی اشیاء ضروریہ کے داموں میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی آئی ہے جب کہ بے روزگاری کا طوفان میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی آرہی جب کہ برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اسی طرح ٹیکس آمدن میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر بھی خاصی بڑھی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی حالیہ رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد میں اضافہ ہوا جب کہ ملک میں کاروبار کرنے کے لیے ماحول میں بہتری آئی ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے بارے میں عالمی سوچ منفی 10فیصد سے نکل کر 31فیصد مثبت پر آگئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں، مینوفیکچرنگ سیکٹر کی گروتھ 2فیصد سے 6فیصد پر آگئی جب کہ سروسز سیکٹر کی گروتھ 7فیصد سے بڑھ کر 30فیصد ہوگئی ہے جو ایک نمایاں کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیمنٹ، آٹو سیکٹر، فرٹیلائزرز اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، یہ نتائج عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ رپورٹ اس امر کی عکاس ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے امید افزا اور قابل اعتماد منزل ہے، گزشتہ چند ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات اور ریکارڈ ترسیلات زر کی بدولت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، عوام کو ریلیف پہنچانا ہماری ترجیح ہے، حکومتی کی بہتر معاشی پالیسیوں اور معاشی ٹیم کی محنت کے ثمرات ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ مزید برآں وزیر اعظم نے یونیورسل ہیلتھ کوریج کیلئے عالمی اقدامات کو سراہتے ہوئے پاکستان کی طرف سے ان اقدامات کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج ڈے 2024پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ ہم کسی شہری کی سماجی و اقتصادی حیثیت سے قطع نظر، سب کے لیے صحت کی دیکھ بھال کو قابل رسائی بنانے کو اخلاقی طور پر اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ہماری قومی سلامتی، خوشحالی اور ترقی پر سمجھوتہ ہوگا، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔وزیراعظم میاں شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ حکومتی کوششوں کے طفیل ہی حالات سُدھر رہے ہیں۔ آئندہ وقتوں میں ان میں مزید سُدھار کا امکان ہے۔ ملکی ترقی اور خوش حالی کی جانب درست قدم اُٹھالیے گئے ہیں۔ کئی عالمی ادارے بھی اس کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ وہ اپنی رپورٹس میں پاکستان میں آئندہ وقتوں میں گرانی میں کمی اور معیشت کی صورت حال میں بہتری کی نوید سنارہے ہیں۔ عوام کی حالتِ زار بہتر ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے صورت حال خاصی موافق ہوچکی ہے۔ بیرون ممالک ناصرف سرمایہ کاریاں کررہے بلکہ دوسرے ممالک کے ادارے بھی یہاں بڑی سرمایہ کاری پر کمربستہ ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام جلد ہی ترقی اور خوش حالی سے کے حقیقی ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔
شذرہ۔۔۔۔۔
شام سے پاکستانیوں کی محفوظ واپسی
پچھلے دنوں شام میں اسد خاندان کے 53سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔ تب سے وہاں بے یقینی کی صورت حال ہے جب کہ عالمی دہشت گرد اسرائیل کی جانب سے شام پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے، شام کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنے کے ساتھ وہاں اسرائیل قبضے کے لیے پرتول رہا ہے، کچھ علاقوں کو اپنی دسترس میں بھی کر چکا ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی اس کی سرشت میں شامل ہے۔ پہلے ہی یہ ناجائز ریاست فلسطین پر پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے آتش و آہن برسا رہی ہے۔ 45ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے جب کہ لاکھ سے اوپر لوگ زخمی ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد میں ایسے بھی فلسطینی شہری شامل ہیں، جو عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوچکے ہیں۔ پاکستان ابتدا سے ہی اسرائیلی درندگی اور جارحیت کی ناصرف مذمت کرتا آرہا، بلکہ مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کو روکنے کے مطالبات بھی کرتا چلا آرہا ہے جب کہ عالمی برادری پر بھی اسرائیلی حملے رُکوانے سے متعلق پاکستان کا واضح اور دوٹوک موقف ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملک شام میں پاکستانی بھی کافی تعداد میں موجود ہیں، جن کی بحفاظت وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے گزشتہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف نے احکامات دیے تھے۔ اس حوالے سے پاکستانی سفارت خانے کے حکام و عملہ انتہائی مستعدی دِکھا رہا ہے۔ گزشتہ روز 300سے زائد پاکستانی بخیر و عافیت وطن واپس پہنچے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ شام میں تمام پاکستانیوں کو معاونت فراہم کرنے میں مصروف ہے اور 300سے زائد پاکستانی شام سے محفوظ طریقے سے پاکستان پہنچ چکے ہیں، شام میں کوئی بھی حکومتی انصرام شامی لوگوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے، موجودہ صورت حال انتہاپسندی کو فروغ دے سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے شام کی خودمختاری اور سالمیت کی بھرپور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے شام کے علاقوں پر قبضے کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ شام میں تمام پاکستانیوں کو معاونت فراہم کرنے میں مصروف ہے اور 300سے زائد پاکستانی شام سے محفوظ طریقے سے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے حملوں میں شام کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی دفتر خارجہ شام سے پاکستانیوں کے محفوظ انخلا کے لیے پوری طرح سے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو شام میں اسرائیلی جارحیت پر تشویش ہے، اسرائیل کی جانب سے حملوں میں شام کی آبادیوں کو تباہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیل کی جانب سے شام کے علاقوں پر قبضے کی مذمت کرتا ہے، کسی بیرونی قوت کو شامی لوگوں کا مستقبل طے کرنے کا حق نہیں، ہم شام میں عوام کی حمایت یافتہ حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شام میں کوئی بھی حکومتی انصرام شامی لوگوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ تین سو پاکستانیوں کی بخیر و عافیت وطن واپسی نیک شگون ہے۔ باقی ماندہ تمام پاکستانیوں کی بخیرو عافیت واپسی کے لیے مزید تیزی سے اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے اسرائیل کی شام پر تازہ جارحیت کے خلاف کھل کر اظہار کیا ہے۔ شام میں وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق حکومتی انتظام و انصرام ہونا چاہیے۔ کسی خارجی کو اس میں مداخلت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کو ان حملوں سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ فلسطین اور دیگر مسلمان ملکوں پر اسرائیلی حملوں کو رُکوایا جائے۔ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لانے کے لیے دُنیا اپنا کردار ادا کرے۔