اسلام آباد آئے تو واپس نہیں جائیں گے، آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، سینیٹر جے یو آئی (ف)
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیے ہوئے کہا ہے کہ اگر مدارس کے حوالے سے یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے، آپ گولیاں چلائیں گے اور آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، ہم واپس نہیں جائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ جے یو آئی ہی 2018کے الیکشن کے خلاف تحریک چلارہی تھی، جو کام پی ٹی آئی سے کروائے گئے، وہی آج کی حکومت سے کروائے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اگر مذاکرات کی بات کر رہی ہے، تو آپ اس کو طعنے کیوں دے رہے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہا کہ 26ویں ترمیم پاس کروائی گئی لیکن مدارس والی ترمیم ابھی تک وہیں پر ہیں، ہمیں پہلے بھی کہا جاتا تھا آپ کے ساتھ دھوکا ہوگا۔
سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ پارلیمنٹ کے طے شدہ بل پر آپ دھوکا دے رہے ہیں تو پی ٹی آئی آپ پر کیسے یقین کرلے گی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا وہی حال ہوگا جو پی ٹی آئی کا ہو رہا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سینیٹر نے کہا کہ وہ اس لئے ان کو جیلوں میں ڈالتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں ہمارے کندھوں پر بیٹھ کر آتے ہیں اور آنکھیں بھی ہمیں دکھاتے ہیں۔
مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اگر مدارس پر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے، ہم اسلام آباد آئیں گے، آپ گولیاں چلائیں گے اور آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی ہم واپس نہیں جائیں گے۔
قبل ازیں ڈیرہ اسمٰعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے، ہمارا علما سے کوئی اختلاف نہیں، ہماری شکایت صرف اور صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کل سیاست میں مدارس کی رجسٹریشن پر بحث کی جارہی ہے، دینی مدارس کی رجسٹریشن کےلیے بل حکومت نے تیار کیا تھا، ہم نے 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر الیکشن سے قبل شہباز شریف کی حکومت میں لائے جانے والے مسودے کو منظور کرنے کا مطالبہ کیا، اس کے بعد بل کو دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے بعد بل پر دستخط کیوں روکے گئے، جس مسودے کی تیاری میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں شریک تھی اس پر صدر آصف علی زرداری کے پاس دستخط نہ کرنے کی کیا گنجائش موجود تھی؟کیا بل کے معاملے اور تمام تر مراحل میں ریاستی ادارے شامل نہیں تھے؟
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جن لوگوں نے ہمارے ان علمائے کرام یا مدارس کی وہ تنظیمیں جو ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم کے تحت رجسٹریشن کررہے یا کرچکے اس کا سارا نزلہ ہم پر کیوں گررہا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھادیا گیا، جنہوں نے علما کو بلایا وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے علما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی مدرسے، مدرسوں کی تنظیم یا علما سے اختلاف نہیں ہے، جنہوں نے مسودہ تیار کیا ان کے کہنے پر یہ شور برپا کررہے ہیں، الیکشن سے قبل جو مسودہ تیار کیا تھا وہ بھی تو سرکار نے بنایا تھا، ہمیں مدارس کی نئی تنظیموں، وفاق کے بنائے جانے پر ہمیں تحفظات ہیں، کیا مدارس کی ان تنظیموں کو تقسیم کرنے میں اداروں کا ہاتھ نہیں تھا؟ جس نے یہ تقسیم کی تھی کیا وہ باقی تمام معاملات میں مجرم تھا اور اس حوالے سے صحیح تھا۔