مشرق وسطیٰ میں طاقت کی نئی بساط
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے فوجی کارروائیوں میں غیر معمولی شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں ایک طاقت کا خلا پیدا ہوا ہے، جہاں مختلف مسلح گروہ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ یہ اسرائیل مخالف گروہ جدید ہتھیاروں پر قابض ہو سکتے ہیں، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔ اسرائیل نے ان حملوں کے ذریعے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے، شامی فوجی ڈھانچے کو کمزور کرنے، اور ممکنہ طور پر نئی حکومت کے لیے دفاعی نظام کو غیر مثر بنانے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیلی دفاعی فورسز نے مختصر عرصے میں تقریباً 480فضائی حملے کیے، ان حملوں کے دوران ہتھیاروں کے ذخائر کو تباہ کیا گیا تاکہ ان اسرائیل مخالف گروہوں کے ہاتھ جدید ہتھیار نہ لگ سکیں۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور دیگر مہلک ہتھیار ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف تھے۔ اسرائیل نے شامی فوج کے اہم انفراسٹرکچر، ہوائی اڈوں اور فوجی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا تاکہ شامی فوجی قوت کو کمزور کیا جا سکے۔ ساحلی علاقوں میں بحری جہازوں اور میزائل ذخائر کو نشانہ بنایا گیا۔ فضائی برتری کے لیے شامی دفاعی نظام کو تباہ کیا گیا جبکہ کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیبات کو بھی ختم کیا گیا تاکہ مہلک ہتھیار مخالف گروہوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ دمشق، حمص اور لاذقیہ جیسے شہروں میں اسلحہ سازی کے مراکز کو تباہ کر کے اسرائیل نے نہ صرف شام بلکہ حزب اللہ جیسے گروہوں کی قوت کو بھی کم کرنے کی کوشش کی۔ ان حملوں نے نہ صرف شام بلکہ ایران اور دیگر علاقائی طاقتوں کے لیے بھی ایک چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ روس کی موجودگی اور ممکنہ ردعمل خطے میں اہمیت اختیار کر چکا ہے، جو کہ اسرائیلی اور شامی تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عالمی برادری مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ اسرائیل کی یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات دنیا کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں کہ آیا امن کا قیام ممکن ہوگا یا نہیں۔
اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے مشرق میں ایک بفر زون قائم کرنے کے لیے اپنی افواج کو تعینات کیا ہے۔ یہ علاقہ 1967 ء سے اسرائیلی قبضے میں ہے، اور حالیہ اقدامات کو اسرائیل کی علاقائی توسیع کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ قدم اسرائیل کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ شام میں موجود طاقت کے خلا کو اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ روس اور ایران کی یوکرین میں مصروفیات کے باعث اس کی طاقت میں کمی اسرائیل کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے قریب موجود خطرات کو کم کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ کارروائیاں شام میں پہلے سے موجود انسانی بحران کو مزید بڑھا سکتی ہیں، جہاں جنگ زدہ عوام پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان حملوں نے نہ صرف انسانی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ شامی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل نے 2011ء سے شامی خانہ جنگی کے دوران متعدد فضائی حملے کیے ہیں، جن کا ہدف زیادہ تر ایرانی اثاثے اور حزب اللہ کی پوزیشنز تھیں۔ تاہم، حالیہ حملوں کی شدت اور وسعت ان تمام کارروائیوں سے زیادہ ہے، جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیل موجودہ سیاسی صورتحال کو ایک فوری خطرہ سمجھتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ اسرائیل کی حالیہ فوجی کارروائیاں امریکی خارجہ پالیسی اور مشرق وسطیٰ کی مجموعی سیاست پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس صورتحال میں محتاط حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ خطے میں مزید کشیدگی پیدا نہ ہو۔ اسرائیل کے ان اقدامات کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ کی سیاست کو نئی شکل دے سکتے ہیں۔ شام کی موجودہ صورتحال عالمی برادری کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، جو خطے میں امن و استحکام کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اسرائیل کے ان اقدامات کو خطے کے دیگر ممالک کے لیے ایک وارننگ کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ شام میں اسرائیلی کارروائیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ایران کی خطے میں موجودگی کو کمزور کرنے کی ایک بڑی کوشش کا حصہ ہیں۔ ایران اور حزب اللہ کی موجودگی اسرائیل کے لیے ایک مستقل خطرہ رہی ہے، اور حالیہ حملے ان خطرات کو محدود کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ ان حملوں کی ذریعے اسرائیل نے نہ صرف ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ حزب اللہ کی طاقت کو بھی کمزور کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ ایران کو محدود کرنے کی پالیسی اسرائیل کے لیے ایک طویل مدتی حکمت عملی ہے، جو خطے میں اس کی برتری کو مستحکم کرے گی۔
غزہ کے مستقبل کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ صورتحال ایک خطرناک منظر نامہ پیش کرتی ہے، جہاں اسرائیلی کارروائیاں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ غزہ پہلے ہی انسانی بحران کا شکار ہے، اور اسرائیل کی یہ جارحانہ حکمت عملی وہاں کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والا خوف و ہراس نہ صرف فلسطین بلکہ یمن جیسے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے، جہاں پہلے ہی جنگ اور غربت کا راج ہے۔ یمن کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اسرائیل اور دیگر طاقتیں اپنے اقدامات میں احتیاط سے کام نہ لیں تو خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ روس کا ممکنہ کردار بھی اس تمام صورتحال میں اہم ہے۔ شام میں روس کی موجودگی اور اس کا اسد حکومت کی حمایت میں کردار اسرائیل کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں روس کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے، لیکن مشرق وسطیٰ میں اس کی اسٹریٹجک موجودگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ روس کی ممکنہ مداخلت یا سفارتی کوششیں شام کے بحران کو ایک نئے رخ پر لے جا سکتی ہیں، جو خطے کی سیاست پر گہرے اثرات ڈالے گی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں خطے میں ایک نئی طاقت کی صف بندی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کارروائیوں کے اثرات صرف شام تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ پر اثر انداز ہوں گے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کرے، تاکہ خطے میں دیرپا امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔