جنرل فیض حمید اور عمران خان کے روابط
امتیاز عاصی
جنرل فیض حمید کے خلاف فردجرم لگنے کے بعد ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ فیض حمید اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گے جس کے بعد فوجی عدالت ان کے خلاف سماعت کا باقاعدہ آغاز کرے گی۔ جنرل فیض حمید کے خلاف موخذاے کی کارروائی سے یہ بات واضح ہے عسکری ادارے میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ معتوب جنرل کے خلاف جو الزامات ہوں گے ان کی تفصیلات منظر عام پر تو ابھی تک نہیں آئی ہیں البتہ ایک بات واضح ہے ان کے خلاف ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام بہرصورت ضرور ہوگا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے عمران خان اور جنرل فیض حمید کے آپس میں گہرے روابط تھے یہاں تک کے فیض حمید اور عمران خان کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ جیل میں بھی ہوتا رہا ہے۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا معاملہ ابھی تک سپریم کورٹ میں ہونے سے التواء کا شکار ہے۔ البتہ جن ملزمان کے مقدمات دہشت گردی کی عدالتوں میں ہیں ان کی سماعت جاری ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد دو سال تک فوجی افسران پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ پر پابندی کے باوجود جنرل ( ر) فیض حمید عمران خان کے ساتھ کسی نہ کسی ذریعے سے رابطوں میں تھے۔ اس حقیقت میں بھی دو آراء نہیں عمران خان کو اقتدار میں لانے والے طاقت ور حلقے تھے۔ گویا اس لحاظ سے عمران خان اور جنرل فیض حمید کے درمیان تعلق کا ہونا کوئی نئی بات نہیں تاہم عمران خان کے اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد اور جیل میں رہتے ہوئے دونوں کے درمیان روابط کا ہونا سوالیہ نشان ہے۔ تعجب اس پر ہے ایک سابق اعلیٰ فوجی افسر یہ جانتے ہوئے وہ دو سال تک کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا تھا عمران خان کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ تحقیق طلب تھا۔ جنرل فیض حمید اور عمران خان کے درمیان رابطہ کار کو ایک ادارے نے تحویل لیتے ہوئے یقینی طور پر اس بارے معلومات حاصل کیں ہوں گی۔ جہاں تک اس ناچیز کی معلومات کا تعلق ہے محکمہ جیل خانہ جات کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک سابق جیل افسر سے رابطہ کرکے اسے کسی صاحب کی طرف سے جنرل فیض حمید کا خط عمران خان تک پہنچانے کی فرمائش کی گئی تو اس سابق جیل افسر نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا وہ ملازمت سے ریٹائر ہو چکا ہے لہذا اس کا جیل کے اندر کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔ ایک اور جیل ملازم جس کے جنرل ( ر) فیض حمید کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے اس سے معلومات حاصل کرلی گئی ہیں، جس کے بعد اسے راولپنڈی سے کئی سو کلو میٹر دور واقع ڈی آئی جی جیل خانہ جات کے آفس میں کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے آغاز کے بعد عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا قومی امکان ہے۔ سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف حکومتی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے تاوقتیکہ سپریم کورٹ سے اس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں آتا عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ سانحہ ڈی چوک اور سول نافرمانی کے اعلان کو کے پی کے کی صوبائی کابینہ کی طرف سے رد کرنے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کے رویے میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ خبروں کے مطابق اس سے پہلے پی ٹی آئی حکومت سے مشروط مذاکرات پر زور دیتی رہی۔ اب حالات نی پلٹا کھایا ہے، پی ٹی آئی غیر مشروط مذاکرات پر رضامند دکھائی دیتی ہے، لیکن اب حکومت کا اس سلسلے میں رویہ کچھ بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ نائب وزیراعظم اور امور خارجہ کے وزیر اسحاق ڈار کا کہنا ہے سانحہ نو مئی کا فیصلہ آنے تک وہ کوئی بات نہیں کر سکتے جو اس امر کا غماز ہے حکومت ڈٹ گئی ہے لہذا حکومت کا اس سلسلے میں پلہ بھاری لگتا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے حکومت سانحہ نو مئی کے وہ ملزم جو فوجی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں گے انہیں کسی صورت رہا کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور نہ عمران خان کی رہائی کے امکانات ہیں ۔ سانحہ نو مئی کے بعد ڈی چوک میں پیش آنے والے واقعہ میں سیکیورٹی اداروں کے اہل کاروں اور پی ٹی آئی ورکرز کی ہلاکتوں کے بعد پی ٹی آئی میں وہ دم خم دکھائی نہیں دے رہا ہے جو ڈی چوک کا سانحہ پیش آنے سے قبل تھا۔ پی ٹی آئی قیادت کو ڈی چوک کی احتجاج کے دوران یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے ماسوائے کے پی کے ورکرز کے جنہیں وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی سرپرستی تھی ملک کے کسی اور صوبے کے ورکرز کی خاطر خواہ نمائندگی نہیں تھی۔ پی ٹی آئی قیادت حکومت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر راضی ہے تو حکومت کو بھی خوش دلی سے اسے قبول کر نا چاہیے۔ حکومت اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے درمیان افہام و تفہیم کی راہ ہموار ہو سکتی ہے تو فریقین کو آپس میں مل بیٹھ پر معاملات کو کسی حتمی نتیجہ پر پہنچانا چاہیے۔ ہمارا ملک اس وقت سیاسی اور معاشی مسائل کی گرداب میں ہے عوام اپنی جگہ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ سانحہ ڈی چوک پر ہونے والی ہلاکتوں کے بعد عوام کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے وہ ورکرز جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کے لئے گھروں سے نکلے تھے جب ان کے گھروں میں ان کی ہلاکتوں کی خبر پہنچی ہوگی تو کہرام مچ گیا ہوگا۔ علی امین گنڈا پور ہلاک ہونے والوں کو چاہیے کروڑوں دیں مرنے والے تو کبھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ ہے سانحہ نو مئی کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے وہ غلط نہیں ہے ہم تو کہیں گے سانحہ ڈی چوک کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ جس سطح پر کسی نے کوئی غیرقانونی اقدام اٹھایا ہے انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دینی چاہئے۔