ColumnRoshan Lal

شام میں انقلاب کے بعد۔۔۔

روشن لعل
شام میں برپا کیے گئے انقلاب کے بعد بہتری کی امید رکھتے ہوئے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ اب وہاں مثبت تبدیلیاں ضرور ظاہر ہونی چاہئیں۔ شام میں انقلاب آنے کے بعد وہاں جو کچھ فوراً ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ پہلے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر بفر زون قرار دیئے گئے علاقے میں اپنی فوجیں داخل کیں اور پھر شام کی عسکری تنصیبات اور اسلحہ کے ذخائر پر 400کے قریب ہوائی حملے کرتے ہوئے وہاں موجود ہر قسم کا سامان حرب تباہ کر دیا۔ جب اسرائیل کے جنگی جہاز شام کی فوجی تنصیبات کو تباہ کر رہے تھے اس وقت باغیوں کے لیڈر ابو محمد الجولانی کا یہ بیان میڈیا پر گردش کر رہا تھا کہ وہ سبکدوش کر دیئے گئے شامی صدر بشارالاسد کا ساتھ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور جو کوئی سابق صدر کے ساتھیوں کی نشاندہی کرے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اسرائیل کی شام کی فوجی تنصیبات پر ہوائی حملوں کی بیرونی دنیا تو مذمت کر رہی ہے لیکن ابو محمد الجولانی یا اس کے نامزد عبوری وزیراعظم کا ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ابو محمد الجولانی کی کامیاب بغاوت کا ہنی مون ختم ہونے سے پہلے ہی اسرائیل نے جو کچھ کیا اس سے شام میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہونے کے متعلق خدشات ہی پیدا نہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھا ہے کہ لبنان میں اپنے ہدف کے مطابق کامیاب فوجی کارروائیاں کرنے والا اسرائیل، شام کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ کیا سلوک کر سکتا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بشارالاسد کی حکومت اپنے والد حافظ الاسد کی آمرانہ اور پر جبر حکمرانی کا زیادہ برا تسلسل تھا۔ بشارالاسد کی ہر صورت اقتدار پر قابض رہنے کی خواہشوں اور کوششوں نے ہی شام میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی۔ بشارالاسد کی بعث پارٹی نے 1963ء میں شام پر حکومت قائم کی۔ بعث پارٹی کے مختلف لیڈروں کے ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے دوران حافظ الاسد نے 1970ء میں اقتدار پر قبضہ کیا جو سال 2000ء میں اس کی موت تک جاری رہا۔ حافظ الاسد کی موت کے بعد شام کی حکمرانی بشارالاسد کو منتقل ہوئی ۔ ان دونوں باپ بیٹوں نے مسلسل 24برس اپوزیشن کا وجود ناقابل برداشت تصور کرتے ہوئے حکمرانی کی۔ عسکریت پسند اخوان المسلمون کی ایک شاخ، دیگر عرب ملکوں کی طرح شام میں بھی موجود تھی لیکن حافظ اور بشار نے اس مذہبی گروہ کے خلاف ایسے سخت اقدامات کیے کہ ملک میں اس کی رکنیت کوہی غیر قانونی قرار دے دیا۔ انہوں نے مذہبی انتہا پسند اخوان المسلمون کے علاوہ سیکولر اور جمہوریت پسندی کی سیاست کرنے والے دیگر سیاسی حریفوں پر بھی پابندیاں عائدکیے رکھیں۔ شام میں صرف ان سیاسی جماعتوں کو قابل قبول سمجھا گیا جنہوں نے غیر مشروط طور پر بشارالاسد کی حکومت کو تسلیم کیا۔ حافظ اور بشار کی حکمرانی کے دوران شام میں سول سوسائٹی انتہائی کمزور رہی، ٹریڈ یونینز اور کئی مذہبی تنظیمیں اس لیے کھوکھلی ہوگئیں کیونکہ انہیں حکومت کے وفاداروں سے بھر دیا گیا تھا۔ شام میں کمزور کردی گئی اپوزیشن نے جب بھی سر اٹھانے کی کوشش کی اسے بری طرح کچل دیا گیا۔ ان وجوہات کی بنا پر وہاں 1970ء سے 2011ء تک اپوزیشن تقریباً غیر فعال رہی مگر مارچ 2011ء میں عرب بہار کے نام سے دیگر عرب ملکوں کی طرح شام میں بھی ایسی بغاوت ابھری کہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ وہی ملک ہے جہاں اپوزیشن کا وجود ناپید سمجھا جارہا تھا۔
عرب بہار تحریک کے نتیجے میں جس طرح مختلف عرب ملکوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور وہاں مختلف مذہبی انتہا پسند مسلح گروپوں نے بالادستی حاصل کی، اس سے کچھ لوگوں نے یہ اخذ کیا کہ یہ تحریک سوچی سمجھی سکیم کے تحت شروع کی گئی تھی۔ عرب بہار تحریک ، عرب ملکوں میں عام لوگوں کے لیے جمہوری و معاشی حقوق کے حصول کے نام پر شروع ہوئی تھی مگر بعد ازاں دیکھا گیا کہ تیونس کے زین العابدین، مصر کے حسنی مبارک، یمن کے علی عبداللہ صالح اور لبیا کے معمر قذافی کی حکومتوں کے خاتمے کے باوجود ان کے ملکوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہونے کی بجائے حالات پہلے سے بھی بدتر ہو گئے۔ عرب بہار کے دوران کئی عرب ملکوں کے عوام اپنے آمر حکمرانوں کی حکومتیں ختم کرنے میں کامیاب ہوئے مگر شام میں زبردست کوششوں کے باوجود بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمہ کی راہ میں لبنان میں فعال کردار ادا کرنے والی حزب اللہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ۔ حزب اللہ نے ایران کی ایما پر بشارالاسد کی حکومت قائم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ عرب بہار تحریک کا زور ٹوٹنے کے بعد داعش نے شام کے علاقے راقا کو اپنا دارالحکومت بنا کر بشارالاسد کی حکومت کو چیلنج کیا۔ عرب بہار کے دوران بشارالاسد کے خلاف مسلح بغاوت کو حزب اللہ نے روکا جبکہ شام سے داعش کا خاتمہ کرنے کے لیے روس کی فضائیہ نے کردار ادا کیا۔ حالیہ دنوں میں اگر بشارالاسد کی حکومت ماضی کی طرح برقرار نہیں رہ سکی تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے 17ستمبر کے بعد لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر شدید اور مسلسل حملے کرتے ہوئے اسے اتنا جانی و مالی نقصان پہنچایا کہ حسب سابق بشارالاسد کی حکومت کو تحفظ دینا اس کے بس میں نہ رہا۔ حزب اللہ کے مفلوج ہونے کے بعد جو مسلح باغی زیر زمین چلے گئے تھے وہ آناً فاناً باہر آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بشار الاسد کو اس طرح اقتدار چھوڑنے اور ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا کہ شامی فوج اور روس کی فضائیہ کچھ بھی نہ کر سکی۔ بشارالاسد کے خلاف بغاوت کے وقت شامی فوج نے کیوں مزاحمت نہ کی اور روسی انتظامیہ کس مصلحت اور دور اندیشی کے تحت ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہی یہ آنے والے وقت میں ہی پتہ چل سکے گا۔
جو کچھ آنے والے وقت میں پتہ چلے گا وہ بعد کی بات ہے لیکن فی الوقت یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر اسرائیل نے حزب اللہ کو شدید نقصان نہ پہنچایا ہوتا تو شامی باغی کبھی اتنی آسانی سے بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ شامی باغیوں کو ملنے والی ترکی اور سعودی عرب کی حمایت کے ساتھ اسرائیل اور امریکی سہولت کاری کے بھی واضح اشارے سامنے آرہے ہیں۔ اسرائیل نے شام کی جن عسکری تنصیبات کو تباہ کیا وہ بشارالاسد نہیں بلکہ شامی ریاست کے اثاثے تھے۔ باغیوں نے شام کی ریاست پر تو قبضہ کر لیا لیکن اسرائیل کے ہاتھوں شامی ریاست کے اثاثوں کی تباہی پر ان کی خاموشی اب تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ باغیوں کے شام پر قبضہ کرنے کے ساتھ اس طرح کے کچھ دیگر معمے بھی جڑے ہیں۔ ان معموں کی موجودگی میں باغیوں کے ہاتھوں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمہ کو سادہ معاملہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ شام میں مسلح گروہوں اور سیاسی لوگوں کے جس اتحاد نے بغاوت کی اس اتحاد میں کٹر مذہبی اور سیکولر سوچ رکھنے والے لوگ ایک ساتھ موجود ہیں ۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ آنے والے وقت میں مذہبی اور سیکولر سوچ رکھنے والے لوگوں کے اتحاد میں پھوٹ پڑنے سے شام میں ایک نیا انتشار اور کشمکش شروع ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button