CM RizwanColumn

نئے پینشنرز کو گہرا صدمہ

تحریر : سی ایم رضوان
پنشن کی مد میں سالانہ ایک ہزار ارب روپے خرچ کرنے والے ملک پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت کے ایک تازہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ رواں ماہ دسمبر 2024ء سے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن نئے قانون کے مطابق ملے گی اور اس میں 2011ء کے بعد ہونے والا سالانہ اضافہ بھی واپس لیا جا رہا ہے۔
پنجاب کے محکمہ خزانہ نے دو دسمبر 2024ء سے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن میں سالانہ اضافہ ختم کر کے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے والوں کی پینشن بھی دو سے 10فیصد تک کم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری ملازمین نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو مسترد ہی کرنا تھا۔ ملازمین کا موقف درست ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اپنے شاہانہ اخراجات کم کرتی اور سالوں محنت کرنے والے اور زندگی جیسی متاع کار سرکار کے لئے مختص اور وقف کر دینے والے سرکاری ملازمین کی پنشن پر شب خون نہ مارتی مگر کیا کیجئے سرکار کی سینے میں دل نہ ہونے والی ازلی خصلت کا کہ اس نے یہ خیال تک نہیں کیا کہ پنشن تو کسی بھی ریٹائرڈ ملازم کی ضعیفی کا آسرا ہوتی ہے اور زندگی کے آخری دنوں میں اسی پنشن کی بنیاد پر ہی اس کی زندگی آسان ہوتی ہے اور اگر مہنگائی کے تناسب سے اس کی پنشن اس کی گزر اوقات کے لئے ناکافی ہو تو اس کا نتیجہ محرومی اور احساس عدم تحفظ کے سوا کوئی اور نکل ہی نہیں سکتا مگر اس کھلی حقیقت کے باوجود حکومت اپنے ٹھاٹ باٹ کم کرنے کی بجائے ریٹائر ہوئے والے ملازمین سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنے پر مصر ہے۔
تاہم اس فیصلے کے خلاف اگلے ہفتے ملازمین کی تمام تنظیموں کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ محکمہ خزانہ پنجاب کے سیکرٹری مجاہد شیر دل کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ یکم دسمبر سے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن نئے قانون کے مطابق ملے گی اور اس میں 2011 ء کے بعد ہونے والا سالانہ اضافہ بھی واپس لیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے محکمہ خزانہ پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کی شرائط کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایت پر عملدرآمد کے تحت یہ اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔ جس کے تحت پنشن میں اضافہ نہ صرف روک دیا گیا ہے بلکہ ماضی میں ہونے والا اضافہ بھی واپس لے لیا گیا ہے جس کے تحت پنشن میں کمی کا اطلاق دو دسمبر سے ہو گا۔ یاد رہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے پہلے ہی اس بارے میں قانون بنا دیا گیا تھا جس کا اطلاق رواں سال جولائی سے ہونا تھا مگر تاخیر کے باعث اب دو دسمبر سے اسے لاگو کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے تحت وزارت خزانہ پنجاب کی جانب سے تمام صوبائی محکموں کو مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پنشن میں اضافے پر بندش کا آغاز منگل دو دسمبر سے ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین پر ہو گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے 2011ء ،2015ء اور 2022ء میں پنشنز میں جو اضافہ کیا گیا تھا وہ بھی واپس لے لیا ہے لہٰذا تمام صوبائی محکموں کے سربراہان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دو دسمبر 2024 ء سے ریٹائر ہونے والے تمام سرکاری ملازمین کی پنشن سے متعلق نئے قانون کے تحت دستاویزی اقدامات کریں اور اس کی رپورٹ محکمہ خزانہ کو پیش کریں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر بھی پنشن میں کمی کی جائے گی۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق سرکاری ملازمین کی ریٹائر ہونے کی عمر 60سال ہے۔ سکیل ایک سے 22تک کوئی بھی سرکاری ملازم اگر 55سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لے گا تو اس کی پنشن میں 10فیصد، 56سال کی عمر میں آٹھ فیصد، 57سال کی عمر تک چھ فیصد، 58سال کی عمر میں چار فیصد جبکہ 59سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کی درخواست دینے والوں کی پنشن دو فیصد کم کی جائے گی جبکہ یہی تناسب ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی اکٹھی رقم پر بھی کم کیا جائے گا۔
ایک اطلاع کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایت پر آئی ایم ایف نے پنشنرز کے لئے جو ضابطہ طے کیا ہے اس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون سازی پنجاب حکومت پہلے ہی کر چکی ہے جس پر رواں سال جولائی میں عمل ہونا تھا لیکن بعض دستاویزی مسائل کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ نئے قانون کے مطابق پنشنرز کو ان کی اور ان کی اہلیہ کی زندگی تک ہی پنشن ملے گی دونوں کی وفات کے بعد ان کے بچوں کو پینشن نہیں مل سکے گی۔ یہی ضابطہ نئے تعینات ہونے والے اور پہلے سے کام کرنے والے سرکاری ملازمین پر بھی لاگو ہوگا۔ یاد رہے کہ سرکاری ملازمین 20سے 25سال نوکری اس امید پر کرتے ہیں کہ انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت اکٹھی رقم مل جائے گی، جس سے وہ بچوں کی شادیاں، گھر کی تعمیر، عمرہ یا حج کر سکیں گے لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے سرکاری ملازمین کو مایوس کر دیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اپنے سرکاری اخراجات اور وزرا کے اخراجات کم کرتی لیکن انہوں نے اپنے اخراجات تو کم نہیں کیے مگر سرکاری ملازمین کی پنشن پر کلہاڑا چلا دیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں ایک سے 22سکیل تک 10لاکھ سے زائد ملازمین ہیں جبکہ ہر سال 35ہزار سے زائد ملازم اور افسر ریٹائر ہوتے ہیں جن کی پینشن میں کمی کر کے حکومت نے ملازمین مخالف ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس کمی جیسے جبر کے بعد اگر کسی ملازم کو اکٹھی پینشن 30لاکھ روپے ملنی تھی تو اب اسے 22لاکھ روپے ملے گی جبکہ 16ویں سکیل والے ملازمین کو 70 ہزار ملتے تھے تو اب انہیں 60ہزار ملیں گے۔ ان دنوں جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ ان حالات میں تنخواہوں اور پینشن میں مزید اضافے کی بجائے پہلے سے ہونے والا اضافہ بھی واپس لیا جا رہا ہے اور آئندہ بھی اضافہ روک دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ ہم اس ظالمانہ اقدام کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے، ہم نے آئندہ ہفتے صوبے بھر کی تنظیموں کا اجلاس طلب کر لیا ہے جہاں ہم اس اقدام کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تیار کریں گے اور کسی بھی صورت اس فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیں گے۔ حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کے ضمن میں تفصیلات یہ ہیں کہ پنجاب سول سرونٹس اصلاحاتی ترمیمی بل 2024پنجاب اسمبلی سے پہلے ہی پاس کرا لیا گیا تھا جو اب گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔ اس قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے وقت کائونٹ کی جانے والی خالص پنشن کو بیس لائن پنشن کہا جائے گا۔ پینشن میں کوئی بھی اضافہ بیس لائن پنشن پر دیا جائے گا جب کہ ہر اضافے کو ایک علیحدہ رقم کے طور پر برقرار رکھا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب تک وفاقی حکومت کسی اضافی پنشن پر نظر ثانی اور منظوری دینے کا فیصلہ نہیں کرتی۔ بیس لائن پنشن کا جائزہ ’’ پے اینڈ پنشن‘‘ کمیٹی ہر تین سال بعد لے گی بشرطیکہ ان ترامیم کے اجرا کی تاریخ پر موجودہ پنشنرز کی موجودہ پینشن کو بیس لائن پنشن سمجھا جائے۔ علاوہ ازیں عام خاندانی پنشن، شریک حیات کی موت یا نااہلی تک ہی جاری کی جائے گی۔ کسی پنشنر کے معذور یا خصوصی بچوں کے معاملے میں، عام خاندانی پینشن ایسے بچوں کی زندگی بھر کے لئے جاری رہے گی۔ حقدار بچوں کے معاملے میں خاندانی پینشن 10سال یا 21سال کی عمر تک قابل ادائیگی رہے گی۔ خصوصی خاندانی پینشن شریک حیات یا پہلے وصول کنندہ کی موت یا نااہلی کے بعد 25سال تک اہل خانہ کے باقی ممبروں کے لئے قابل اجرا ہوگی۔ پینشن وصول کنندگان کے لئے اس طرح کی پینشن کی شرح کو مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کے تمام رینکوں کے لئے 50فیصد تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں، جہاں 60سال کی عمر کے بعد حکومت کے کسی پنشنر کی عوامی خدمت میں دوبارہ ملازمت دی جاتی یا تقرری کی جاتی ہے چاہے وہ مستقل ہو یا عارضی بنیاد پر ہو یا ملازمت کے کسی بھی طریقے سے، پنشنر کے پاس اپنی پنشن برقرار رکھنے یا اس ملازمت کے دوران مذکورہ ملازمت کی تنخواہ لینے کا اختیار ہو گا۔
نئے پنشرز کو ملنے والے اس مالیاتی اور مالی تحفظاتی صدمے سے ان کا احتجاج اور سڑکوں پر آنا بجا ہو گا اور اس ضمن میں اگر وہ حکومت کو کوسیں یا اس پر شدید تنقید کریں تو بیجا نہ ہو گا۔ حکومت کو اس حوالے سے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور خود کو ملازم دوست حکومت ثابت کرنا چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button