ColumnImtiaz Aasi

سعودی عرب میں پاکستان ہائوس

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
سعودی عرب میں پاکستان ہائوس کا معاملہ کئی برسوں سے کھٹائی میں پڑا تھا۔ مدینہ منورہ میں پہلا پاکستان ہائوس باب جبرائیل کے بالمقابل تھا جو پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو شاہ سعود نے تحفے میں دیا تھا تاکہ پاکستان سے جانے والے حج و عمرہ زائرین وہاں قیام کر سکیں۔ مسجد نبویؐ کی توسیع کے پیش نظر پاکستان ہائوس کی یہ عمارت سعودی توسیع کی نذر ہونے سے حکومت پاکستان کو منہدم کئے جانے والی عمارت کا خاصا معاوضہ (Compensation)ملا جس سے پاکستان نے دو عمارات خرید لیں۔ پاکستان ہائوس کی بڑی عمارت 98کمروں اور پاکستان ہائوس کی دوسری عمارت 48کمروں پر مشتمل تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سعودی حکومت نے دور نبوی میں مدینہ منورہ کی کل آبادی والے علاقے پر مسجد نبوی کو توسیع دے دی۔ سعودی حکومت کا شاہراہ ستین سے باہر علاقوں میں بڑی بڑی تعمیرات کا منصوبہ بنانے سے چند سال قبل پاکستان ہائوس کی بڑی عمارت کو گرا دیا گیا۔ قریبا ایک سال قبل پاکستان ہائوس کی دوسری عمارت کو بھی منہدم کر دیا گیا جس کے بعد وزارت مذہبی امور کے دفاتر شاہراہ سلام پر واقع ایک چھوٹی اور پرانی عمارت میں منتقل کر دیئے گے ہیں۔ پاکستان ہاوسز کے منہدم کرنے سے سعودی حکومت نے کئی ملین ریال معاوضہ دیا جو مدینہ منورہ کی شرعی عدالت کی تحویل میں ہے۔ پاکستان ہائوسز کی دونوں عمارات وقف تھیں چند سال قبل سعودی حکومت کاوقف کے قانون کا خاتمہ کرنے سے پاکستان کو مدینہ منورہ میں زائرین کے قیام کے لئے عمارات کی خریدار ی میں مشکلات کا سامنا تھا۔ سچ تو یہ ہے وزارت مذہبی امور کے حکام نے پاکستان ہائوسز کی خریداری میں کوئی دل چسپی ظاہر نہ کی جس سے ہائوسز کا معاملہ التواء میں تھا۔ خوش قسمتی سے وزارت مذہبی امور کو ایک راست باز بیوروکریٹ مشکور احمد خان مرحوم کی راست باز صاحبزادے سیکرٹری ذوالفقار حیدر کی خدمات میسر ہو گئیں جن کی شبانہ روز کاوشوں سے سعودی حکومت نے حکومت پاکستان کو پاکستان ہائوس کی تعمیر اور خریداری دونوں کی اجازت دی ہے جس سے مدینہ منورہ میں پاکستان ہائوس کی پاکستانی زائرین کا ایک بڑا مسئلہ حل ہونے کو ہے۔ وزارت مذہبی امور اس مقصد کے لئے کسی کو ناظر( Trustee))مقرر کرے گی جس کے بعد پاکستان ہائوس کے لئے ایک نئی عمارات کی خریداری کا دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ سعودی عرب میں پاکستان ہائوس ہمارے ملک کی پہچان ہے جہاں پاکستان اور بیرون ملک رہنے والے ہم وطن سب آکر قیام کرتے ہیں۔ پاکستانی زائرین کو پاکستان ہاوسز کی عمارات میں قیام سے جو سب سے بڑی سہولت تھی وہ مسجد نبوی شریف سے چار سو میٹر کی مسافت پر ہونے سے نمازوں کی ادائیگی میں بہت زیادہ آسانی تھی۔ پاکستان ہائوس کی نئی عمارت کی خریداری یا تعمیر کی صورت میں مقامی طور پر رہنے والے پاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع مل سکیں گے۔ موسم حج کا بھی آغاز ہو چکا ہے عازمین حج کی اپنی درخواستیں جمع کرا چکے ہیں البتہ نجی گروپس میں جانے والوں کو بکنگ کی اجازت اس لئے نہیں دی گئی ہے کیونکہ کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں انہیں اپنے اپنے پیکیج کی منظوری وزارت مذہبی امور سے لینا ہے۔ گزشتہ برسوں میں پرائیویٹ حج گروپس آرگنائزر اپنے پیکیج کی منظوری وزارت مذہبی امور سے لیا کرتے تھے مگر گزشتہ برس انہیں اپنے طورپر پیکیج بنانے کی اجازت دی گئی تھی جس کے لئے وزارت مذہبی امور سے منظوری لینے کی شرط عائد نہیں کی گئی تھی۔ بعض گروپ آرگنائزروں نے اس کالم نگار سے اس امر کی شکایت کی انہیں عازمین حج کی بکنگ کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے حالانکہ وہ منی کے خیموں کے لئے زون اے اور بی کے کیٹگری کے خیموں کے حصول کے لئے ایک ارب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان حج مشن کو بھجوا چکے ہیں۔ تعجب ہے پرائیویٹ گروپ لے جانے والے ٹور آپرٹیروں کی تنظیم ہوپ کے نمائندے وزارت مذہبی امور کے حکام کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہنے کے باوجود اپنے حج پیکیج نہیں بنا سکے ہیں۔ عجیب تماشا ہے ہوپ کے نمائندے وزارت مذہبی امور کے حکام کے ساتھ رابطے میں رہنے کے باوجود حج پیکیج کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امسال پرائیویٹ گروپس لے جانے والوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ بھی درپیش ہے مکہ مکرمہ میں جن جن ہوٹلز میں وہ عازمین حج کے قیام کے لئے بکنگ کراتے تھے وہ ان سے کرایوں کی رقم کا 25فیصد ایڈوانس طلب کر رہے ہیں جس سے پرائیویٹ گروپس کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک ذرائع کے مطابق بعض پرائیویٹ گروپ آرگنائزر بیرون ملک خصوصا برطانیہ سے حج کی سعادت کے لئے آنے والے عازمین حج کی بکنگ کے لئے برطانیہ میں مقیم ان لوگوں سے رابطہ میں ہیں جو برطانیہ اور دوسرے ملکوں سے عازمین حج کو سعودی عرب لاتے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نجی گروپس لے جانے والوں کو بیس ہزار سے زیادہ عازمین حج درکار ہوں گے جن کے واجبات زرمبادلہ کی صورت میں جمع ہونے ہیں۔ ایک با اعتماد ذرائع نے ہمیں بتایا ہے پرائیویٹ گروپس والوں کو بکنگ کی اجازت دینے میں وزارت مذہبی امور کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے جیسے ہی وہ اپنے پیکیج بنائیں گے انہیں بکنگ کی اجازت دے دی جائے گی۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو عازمین حج خواہ سرکاری اسکیم یا نجی گروپس کی صورت میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جائیں وہ پاکستانی عازمین حج ہیں ان کی دیکھ بھال وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ وزارت مذہبی امور نے مدینہ منورہ میں پاکستان ہاوسز کی عمارت کی خریداری کا مسئلہ حل کر لیا ہے امید کی جا سکتی ہے آئندہ سال حج انتظامات میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہتری آئے گی۔ وزارت مذہبی اور اور نجی گروپس لے جانے والے عازمین حج کو اللہ تعالیٰ کا مہمان سمجھ کر ان کی دیکھ بھال کریں تو یہ بات یقینی ہے حجاج کرام جہاں اپنے اہل و عیال اور وطن عزیز کے لئے مناجات کریں گے وہاں وہ وزارت مذہبی امور کے حکام کو بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں گے۔ حج انتظامات سے وابستہ حضرات کے لئے عازمین حج کی خدمت بڑے اعزاز کی بات ہے اگر کوئی اسے سمجھے۔

جواب دیں

Back to top button