Column

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاری

تحریر: رفیع صحرائی
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری دے دی ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اسی دسمبر کے مہینے ہی میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لے لی جائے گی۔ اس ایکٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی اور یونین کونسل کی بنیاد پر ہوں گے۔ بلدیاتی اداروں کی مدت 4سال ہو گی۔ بیس ہزار سے کم آبادی میں یونین کونسل قائم ہو گی۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے لیے آبادی کی کم از کم تعداد سات لاکھ تجویز کی گئی ہے۔
اس وقت ملکِ عزیز میں پنجاب ہی ایک ایسا صوبہ ہے جس میں بلدیاتی ادارے غیرفعال ہیں۔ دیگر صوبوں میں بلدیاتی ادارے مکمل فعال ہیں اور اپنا کام خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات سیاسی بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ یہ سیاسی حبس میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ گراس روٹ لیول پر سیاسی سرگرمیاں شروع ہوں گی۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے لوگوں کے بہت سے مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہو جایا کریں گے۔ انہیں اپنی گلیوں کے سولنگ اور نالیاں بنوانے کے بھی ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ڈیروں کے چکر کاٹنے سے نجات مل جائے گی۔
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو تو اس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کئے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں الٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔ ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘ کے مصداق بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں نے ہی پہنچایا ہے۔ وہ جنہیں ہم آمر کہتے ہیں ان کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاستدان بھی عطا کئے جن میں ایک بہت بڑا نام میاں منظور احمد وٹو کا بھی ہے جنہوں نے بی ڈی کونسلر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے منصبِ جلیلہ تک پہنچ گئے۔
ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں۔ سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لئے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں۔ وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔
ایسی میں وزیرِ پنجاب کا بلدیاتی انتخابات کروانے کا فیصلہ خوش آئند اور مثبت سیاسی عمل کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ خدا کرے یہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔

جواب دیں

Back to top button