Column

اردو کا جاسوسی ادب

شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
’’ بڑوں کے لیے ابن صفی کی عمران سیریز نے ایک نسل برباد کر ڈالی۔ ان کے بعد مظہر کلیم وغیرہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور بچوں کی نسلیں اشتیاق احمد نے برباد کر دیں‘‘۔ یہ’’ رائے ‘‘ پڑھ کر آپ یقینا سوچ میں پڑ گئے ہوں کہ یہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس قسم کے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں، تو عرض ہے کہ یہ ’’ اعلیٰ و ارفع ‘‘ خیالات راقم کے ہرگز نہیں ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ خیالات اس کالم کی لکھت کا باعث بنے ہیں ۔ یہ ایک ایسے شخص کے الفاظ ہیں جس کو ادب اطفال کا بڑا محقق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اب وہ آدمی کس پائے کا ہے ، آپ نے ان خیالات کی مدد سے جان ہی لیا ہو گا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کے یہ نادر خیالات ایک اور شخص نے حوالے کے طور پر اپنی وال پر درج کیے ہیں۔ اور حوالہ دینے والا شخص ایک ڈرامہ نگار ہے۔ حال ہی میں اس کا ایک بے تکا سا ڈرامہ نشر ہوا ہے۔
سچ کہتے ہیں کہ اتائی لوگ احتیاط سے خالی ہوتے ہیں ۔ اور یہ اتائی (’’ گھس بیٹھیے‘‘ ) ہر شعبے میں گھسے بیٹھے ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے ، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ ہم نے بھی یہی دیکھا کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ اگر’’ کون کہہ رہا ہے ‘‘ پر نظر رکھتے تو یہ خیالات اس قابل نہ تھے کہ ان پر بات کی جاتی۔
اب بات چل نکلی ہے تو دل میں آیا کہ کیوں نہ ان تین ادیبوں پر بات کی جائے جن کا ذکر خیر برے الفاظ میں آیا ہے ۔ ’’ جاسوسی ادب ان تحاریر پر مبنی ہوتا ہے جن میں سراغ رسانی ، پیچیدہ صورت حال کی گتھیاں سلجھانے ، خفیہ مہمات کو سر کرنے جیسے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے ‘‘۔ عام طور پر جاسوسی ادب پر ایڈوینچر سے بھرپور واقعات اور سائنس فکشن بھی ہوتا ہے ۔ اردو ادب میں اس کی ابتداء تراجم سے ہوئی ۔ طبع زاد تحریریں کا آغاز بعد میں ہوا ۔ ظفر عمر علیگ اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ پہلا جاسوسی ناول نیلی چھتری 1916ء میں لکھا۔ انھوں نے علی گڑھ میں موجود اپنی کوٹھی کا نام بھی نیلی چھتری رکھا۔ اس ناول کی غیر معمولی شہرت کے بعد انھوں نے مزید ناول لکھے جن میں ’’ بہرام کی گرفتاری ‘‘ ، ’’ چوروں کا کلب ‘‘ ، ’’ لال کٹھور‘‘ نامی ناول کافی مشہور ہوئے ۔
کشفی صاحب لکھتے ہیں ’’ ہمارے دانشور جاسوسی ادب کو عامیانہ گردانتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی ابن صفی کے تخلیقی ذہن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ ابن صفی کے ناول کیوں پڑھتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں، کیوں کہ ابن صفی ہمارے کئی ناول نگاروں سے بہتر زبان لکھتے ہیں‘‘۔ جب محمد حسن عسکری نے یہ شکایت کی کہ اردو نثر کا فن زوال پذیر ہے اور کوئی اچھی زبان نہیں لکھ رہا ہے تو میں نے انھیں ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا ایک ناول پڑھنے کو دیا ۔ اس کے بعد وہ ہر ماہ پوچھتے تھے ’’ کشفی صاحب، ابن صفی کا نیا ناول آ گیا ہے ؟۔
اسرار احمد ( ابن صفی ) کی جاسوسی ادب کی طرف مراجعت کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ 1951ء کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہو گا ، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے ۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوسی دنیا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952ء میں شائع ہوا ۔ بعد میں انھوں نے اور سلسلہ عمران سیریز کے نام سے شروع کیا جو مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ گیا وہ ۔ اس سیریز کا پہلا ناول ، خوفناک عمارت 1955ء میں لکھا گیا تھا۔ اکتوبر 1957ء میں ابن صفی نے اسرار پبلی کیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ٹھنڈی آگ شائع ہوا۔ 1958ء میں ابن صفی، لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہو گئے۔ جہاں وہ 1980ء میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔
میری نظر میں اگر اردو ادب کے دس بڑے نثر نگاروں کی فہرست مرتب کی جائے تو ابن صفی ضرور بالضرور اس کا حصہ ہوں گے۔ کیا یہ حیرت کا مقام نہیں ہے کہ ان کے تخلیق کردہ کرداروں پر دو سو زائد مصنفین نے طبع آزمائی کی۔ یہ کم از کم اردو ادب میں اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد واقعہ ہے۔ انھوں نے اردو ادب کو اعتبار بخشا ۔ اردو زبان میں جاسوسی ادب کو وقار عطا کیا۔ میرے خیال میں اردو ادب میں ان سے زیادہ کسی کو نہیں پڑھا گیا۔
ابن صفی کے ادبی قد کاٹھ کی کیا بات کی جائے ۔ میرے خیال میں جس نے اچھی اور صاف ستھری ادبی نثر تخلیق کرنے ہو ، اسے چاہیے کہ وہ ابن صفی کو بار بار پڑھے ۔ اشفاق احمد جیسے بڑے ادیب نے ایک کہا تھا ’’ مجھے ابن صفی کو دربارہ پڑھنا چاہیے ‘‘۔
شروع شروع میں ادب کے سکہ بند ناقدین نے انھیں درخور اعتنا نہیں سمجھا مگر پھر سبھی ان کے قلم کے اسیر ہوتے چلے گئے ۔
مظہر کلیم ایم اے ایک کامیاب قانون دان اور ناول نگار تھے، جنھوں نے پاکستانی مصنف ابن صفی کی تخلیق کردہ عالمی شہرت یافتہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا ( فریدی حمید سیریز) کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے ۔ ریڈیو ملتان کا مشہور سرائیکی ریڈیو ٹاک شو ’’ جمہور دی آواز‘‘ کے اینکر پرسن بھی رہے ۔ ملتان بار کونسل کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے نیز ملتان کی ضلعی عدالتوں کی سربراہی بھی کی ۔ مظہر کلیم نے ابن صفی کی تخلیق کردہ مشہور و معروف عمران سیریز پر قلم آزمائی کی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ سب مظہر کلیم نے اُس وقت کیا جب ابن صفی حیات تھے اور اپنے کرداروں پر ناول لکھ رہے تھے۔ مظہر کلیم نے نہ صرف ابن صفی کے کرداروں پر بلا اجازت لکھا بلکہ اپنے طور پر اس میں مزید توسیع کی اور چند نئے کرداروں کو متعارف کروایا ( کیپٹن شکیل، جوانا ، تائیگر ، صالحہ وغیرہ ) اسی کے ساتھ بچوں کے لیے بھی بہت سے ناول لکھے جن میں چلوسک ملوسک سیریز، آنگلو بانگلو سیریز، فیصل شہزاد سیریز اور چھن چھنگلو سیریز بھی مشہور ہوئی۔ مظہر کلیم کا اصل نام مظہر نواز خان ہے لیکن مظہر کلیم خان کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ پیشہ کے لحاظ سے ایک قانون دان ہے اور ناول نگاری کو ایک جز وقتی مشغلہ کے طور پر اپنایا۔ ان کا کارنامہ یہ ہے انیس سو اسی یعنی ابن صفی کے انتقال کے بعد سے اپنی وفات تک انھوں نے تن تنہا عمران سیریز کو زندہ رکھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید آج عمران سیریز سے نوجوان نسل واقف ہی نہ ہوتی ۔
اشتیاق احمد  (1944ئ2015ئ) ایک معروف پاکستانی، بچوں کے ادیب تھے ۔ انھوں نے 800سے زائد جاسوسی ناول لکھے ۔ وہ اردو میں سب سے زیادہ بچوں کے ناول لکھنے والے ادیب ہیں ۔روزنامہ اسلام کے ساتھ شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالہ بچوں کا اسلام کے وفات تک مدیر رہے ، ہفت روزہ کے ساتھ 15سال تک وابستہ رہے۔ ان کی لکھی گئی انسپکٹر جمشید سیریز بہت مشہور ہوئی۔ ان کی تخلیق کردہ ناول سیریز میں شوکی برادرز کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اشتیاق احمد بیک وقت تین سیریز پر مشتمل ناول لکھا کرتے تھے جن میں جمشید سیریز، کامران سیریز اور شوکی سیریز شامل تھیں۔ مہینے میں عموماً جمشید سیریز کے دو ناول، کامران سیریز اور شوکی سیریز کا ایک ناول شائع ہوتا تھا۔ چھ ماہ یا سال کے بعد ایک خاص نمبر آیا کرتا تھا جس میں انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران اور شوکی برادران شامل ہوتے تھے ۔ جمشید سیریز کا آغاز 1972ء میں ناول ’’ پیکٹ کا راز‘‘ سے ہوا جسے مکتبہ عالیہ نے شائع کیا۔آخری عمر میں ان کا قلم فرقہ واریت کی نذر ہوا جس سے ان کے پڑھنے والوں کو شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ ان کے ایک قاری لکھتے ہیں ’’ جب معلوم ہوا کہ فرحت اور فرزانہ نے پردہ کرنا شروع کر دیا ہے اور انسپکٹر جمشید، کامران مرزا اور شوکی برادران وغیرہ اب کسی طالبانی ریاست میں شفٹ ہو گئے ہیں تو شدید افسردگی کا سا احساس تھا ‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مداح لاکھوں میں تھے ۔ بچوں میں ان کی مقبولیت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ان کا قلم بے قابو ہوا اور فرقہ واریت کی نذر ہو گیا ۔ آخری عمر میں وہ قلمی میدان میں مار کھا گئے ۔ ایک اخبار کے میگزین سے منسلک رہے ۔
میں ان کو بچوں کا ادیب نہیں مانتا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انھوں نے جس قسم کے بچے اپنے ناولوں میں پیش کیے وہ حقیقی دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے ۔ کون سے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو اتنی کھلی چھوٹ دیتے ہیں کہ وہ مجرموں کا تعاقب کریں، سراغ رسانی کریں اور پڑھائی چھوڑ کر اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہیں۔ ان کے قلم کا فرقہ وارانہ رخ پر چل پڑتا بھی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ ایک لکھاری کو لکھاری رہنا چاہیے۔ اسے مصلح اور مبلغ نہیں بننا چاہیے۔
آخر میں میں یہ کہے بنا رہ نہیں سکتا کہ ان نامور مصنفین کو پڑھ کر ہزاروں قارئین بلند پایہ لکھاری بنے۔
ان کا اردو ادب پر یہ احسان کیا کم ہے کہ ان کی وجہ سے اردو کو سیکڑوں لکھاری ملے۔

جواب دیں

Back to top button