سراب سے حقیقت تک
![](https://i0.wp.com/jehanpakistan.pk/wp-content/uploads/2022/02/MUBBASHAR-ANWAR-1.jpg?fit=874%2C874&ssl=1)
محمد مبشر انوار
اس وقت دنیا بھر میں نظام حکومت کسی نہ کسی حوالے سے بہرطور جمہوری ہی دکھائی دیتا ہے خواہ وہ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی جبکہ بادشاہت میں جمہور کی رائے درپیش ہی نہیں ہوتی البتہ جمہور کی فلاح و بہبود بادشاہت میں بھی سرفہرست ہی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست اور نظام حکومت میں جمہور کی رائے کا احترام خال ہی دیکھنے کو ملا ہے اور بالعموم جمہوری رائے کے برعکس کسی فرد واحد کی خواہشات کی تکمیل زیادہ دکھائی دیتی ہے ماسوائے تین انتخابات میں کہ جہاں عوامی رائے کلیتا کسی ایک جماعت کے حق میں رہی اور فرد واحد کے لئے جوڑ توڑ کرنا ممکن نہ رہا۔ ان تین واقعات میں سب سے پہلا معرکہ اس وقت سامنے آیا جب شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کر لی لیکن تب کے فرد واحد اور مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار دینے کی بجائے، ملک دولخت کرنا گوارا کر لیا لیکن عوامی رائے کا احترام مناسب نہ سمجھا۔ دوسری مرتبہ 1988ء میں بے نظیر بھٹو واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ،وزیراعظم کے لئے اس وقت تک نامزد نہ کی گئی جب تک غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کو مطلوبہ یقین دہانیاں نہ کروائی گئی اور تیسری صورتحال اس وقت ملک و قوم کو درپیش ہے کہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں اکثریتی جماعت کے لئے کیسے رکاوٹیں کھڑی کی گئی اور کیونکر اقتدار سے دور رکھا گیا۔ یہاں قارئین کی اکثریت 1997ء کی دوتہائی اکثریت اور اس کی قبولیت کے حوالے سے معترض ہو گی کہ اس کا حوالہ کیوں نہیں دیا گیا اور بددیانتی کا مرتکب ہوا ہوں، تو عرض ہے کہ 1997ء کی دو تہائی اکثریت ایسے وقت می میسر ہوئی، جب مد مقابل بے نظیر بھٹو جیسی قدآور سیاسی شخصیت موجود تھی لیکن چونکہ خواہش یہی تھی کہ مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت دلوانی ہے لہذا ہر طریقہ بروئے کار لایا گیا اور بے نظیر کو فقط 17نشستوں تک محدود رکھا گیا۔ بے نظیر بھٹو کی سیاسی بصیرت تھی کہ وہ سترہ نشستوں کے ساتھ بھی اسمبلی میں موجود رہی کہ کم از کم جمہوری عمل چلتا رہے تاہم اس ناانصافی کا ملال بہرطور انہیں تھا،لیکن یہ بھی علم تھا کہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ نواز شریف کیا کچھ کرسکتے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ دوتہائی اکثریت دلوانے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نواز شریف کے ذہن میں کیا کچھ پک رہا ہے اور وہ کس طرح دوتہائی اکثریت کے بل بوتے پر بلا شرکت غیرے مسند اقتدار پر قابض رہنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں، بالخصوص اس پس منظر میں کہ جہاں ایک طرف وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو منصب سے ہٹوانے میں کامیاب ہو چکے تھے اور بعد ازاں آرمی چیف جنرل جہانگیر علی کرامت کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کر چکے تھے،ان کے امیر المومنین بننے کے خواہش میں بس لب بام ہی باقی تھا کہ اس سے قبل ہی ضرورت سے زیادہ اعتماد میں وہ بم کو لات مار گئے،نتیجہ راندہ درگاہ ہوئے اور نظام بھی لپٹ گیا۔اس دن کے بعد کبھی نواز شریف نے نہ اپنے رفقائ،جن کی اکثریت بہرطور چوری کھانے والے طوطوں سے زیادہ نہیں کہ ان کی اکثریت ڈرائنگ رومز کی سیاست کی دلدادہ ہے اور انتخابی مہم میں بھی بس دکھاوے کی خاطر لوگوں میں نظر آتے ہیں کہ انہیں یقین واثق ہے کہ ان کی نشستیں عوامی حمایت سے زیادہ کسی کے اشارہ ابرو سے نصیب ہوں گی اور نہ ہی عوامی حمایت،جو بہرطور حقیقتا ان کے ساتھ تھی بھی نہیں، جس پر نواز شریف کا شہرہ آفاق جملہ آج ایک ضرب المثل بن چکا ہے کہ ’’ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔
بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اپنے وقت کے دو مقبول ترین سیاستدان ،اس وقت ہی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے کہ پاکستان میں ’’ طاقت کا سرچشمہ بہرطور عوام نہیں ہیں‘‘ ،لہذا میثاق جمہوریت نامی دستاویز پر متفق ہونے کے بعد،دونوں سیاستدان باری باری اقتدار سنبھالنے راضی ہو گئے۔ یہاں بدقسمتی یہ ہوئی کہ سیاسی میدان میں ایک نیا چہرہ وارد ہو گیا،جس کی سحر انگیز شخصیت اپنے کھیل اور سماجی خدمات کے باعث عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی تو دوسری طرف اس کی قائدانہ صلاحیتیں بھی سب پر آشکار تھی،عمران خان کی شخصیت پر 2018ء کے انتخابات میں یہ الزام تواتر سے لگایا گیا کہ ایک اسے بھی بیساکھیوںکے سہارے ہی اقتدار میں لایا گیا ہے جبکہ شہباز شریف کے اعتراف کے بعدساری صورتحال عیاں تھی کہ درحقیقت عمران خان سے اس کا مینڈیٹ چھینا گیا تھا۔ ایسی ہی صورتحال 2013ء کے انتخابات میں بھی ہوئی تھی کہ انتخابات کی گہما گہمی میں ،عمران خان کے ووٹرز ضرورت سے زیادہ پر اعتماد تھے کہ تحریک انصاف انتخابات میں کامیابی حاصل کر لے گی لیکن تب تحریک انصاف بہت بڑی کامیابی حاصل نہ کرپائی۔8فروری کو ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف نے تمام تر اندازے غلط ثابت کر دئیے اور تمام تر انتخابی رکاوٹوں اورجوڑ توڑ کے باوجود واضح اکثریت حاصل کی،لیکن مقبولیت ،کسی بھی طور ’’ قبولیت‘‘میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ یوں تو تحریک انصاف رجیم چینج کے بعد سے ہی احتجاجی سیاست میں مشغول ہے لیکن اس کی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی،اس کی سب سے بڑی وجہ ،عمران خان کے اپنے رفقاء ہیں،جنہیں دوسری سیاسی جماعتوں میں مناسب جگہ نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف میں جگہ ملی اوران کی شناخت قومی سطح پر ممکن ہوئی لیکن بدقسمتی سے ان رفقاء کی اکثریت،اس شناخت کو ذاتی مفادات کے حصول میں استعمال کرتی دکھائی دیتی ہے،جس کے باعث یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ تحریک انصاف کی صف دوم کی قیادت نہ عمران خان کی رہائی چاہتی ہے اور نہ ہی کسی صورت عوامی بہبود ان کی ترجیح ہے۔یہ تاثر بے بنیاد بھی نہیں ہے کہ جب بھی عمران خان کسی احتجاج کی کال دیتا ہے تو یہ قیادت اب حیل و حجت پر بھی اتر آئی ہے اور حیلے بہانے سے یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مقتدرہ کے احکامات کی یوں پیروی کی جائے کہ نہ لاٹھی ٹوٹے اور نہ سانپ مرے،یوں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیںآتی۔ بالآخر عمران خان کو 24نومبر کی احتجاجی کال اپنی اہلیہ کے ذریعہ کارکنان تک پہنچانی پڑی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے چہرے نہ صرف تحریک انصاف کے اندر بلکہ حکومت و ریاست کی جانب سے ،آج تقریبا بے نقاب ہو چکے ہیں۔
26نومبر کو احتجاجی مظاہرین پر گولیاں برسانے والوں سے متعلق یہ گمان بھی باطل ہو چکا کہ ریاست اپنے شہریوں پر گولی نہیں چلاتی تو دوسری طرف ایک نیا تماشہ لگ چکا ہے کہ اولا وزیراعظم نے سپہ سالار کا شکریہ ادا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس میں حکومت ملوث نہیں تودوسری طرف وزراء کی طرف سے ریاست کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوششیں بھی سامنے نظر آر ہی ہیں۔ جوابا وزیر داخلہ اور سینیٹ میں بے جماعتی سینیٹر،ترجمانی کے فرائض ادا کرنے فرنٹ فٹ پر سامنے آ گئے اور ن لیگی وزراء کو ان کی اوقات یاد دلانے لگے،مصدق ملک اور فیصل واوڈا کی تلخ کلامی سے یوں محسوس ہونے لگا جیسے حکومت کے سر سے ہاتھ اٹھنے کو ہے،لیکن کیا واقعتا ایسا ہے بھی یا نہیں؟ویسے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مظاہرین پر گولی حکومت نے چلائی یا حکومتی ایماء پر آرٹیکل 245کے تحت ریاست نے چلائی یا ریاستی ایماء پر حکومت سے یہ گولی چلانے کے احکامات لئے گئے،اصل حقیقت تو یہ ہے کہ شہریوں پر گولی چلی اور انسانی جانوںکا زیاں ہوا،اب اس کو حکومت کے ماتھے کا جھومر بنائیں یا ریاست کا،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری طرف عمران خان جیل میں بیٹھ کر مسلسل عوامی احتجاج کی کال دے کر،اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنا حق حاصل کر لیں گے،تو موجودہ حالات میں یہ بظاہر ان کی خام خیالی لگتی ہے تاہم ایک حقیقت کا اعتراف و ادراک انتہائی اہم ہے کہ افواج پاکستان کے ساتھ عوامی محبت ہمیشہ سے ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے گو کہ مقتدرہ پر تنقید ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن ایک حد کے اندر رہتے ہوئے تنقید ہوئی ہے۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق عمران خان نے 13دسمبر تک کی ڈیڈ لائن ریاست و حکومت کو دی ہے، تاکہ معاملات کو بخیر وخوبی حل کیا جا سکے بصورت دیگر ایک طرف سول نافرمانی کی کال دینے کی اطلاع ہے تو دوسری طرف تارکین وطن کو ضرورت سے زیادہ ترسیل زر سے روکنے کی اپیل کی جائے گی، کیا یہ مذکورہ طریقہ احتجاج کامیاب ہو سکے گا؟اگر کامیاب ہو گیا تو پاکستان کن مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے، کیا ریاست و حکومت و تحریک انصاف کو اس کا ادراک ہے؟ عوامی رائے عامہ اس وقت کس حد تک بھڑک چکی ہے،اس کا ادراک ریاست و حکومت کو ہونا بہت ضروری ہے کہ اس وقت جو ٹرینڈ عوام میں مقبول ہو رہاہے ،اس میں فوج کے زیر انتظام چلنے والی صنعت کا بائیکاٹ،کیا رنگ لائے گا،اور کیا یہ بائیکاٹ صرف بائیکاٹ ہے یا فوج سے عوامی محبت کا بھی بائیکاٹ ہے؟جس قدر مقبولیت عمران خان کی اس وقت عوام میں ہے،اس پس منظر میں دیکھیں تو غالب امکان یہی ہے کہ عوام فوجی مصنوعات کا شدت سے بائیکاٹ کریں گے ،اس صورت میں فوج کا ردعمل کیا ہوگا؟پاکستانی تاریخ میں،شہری ہمیشہ اس سراب کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں کہ جلد یا بدیر پاکستانی سیاست میں ریاستی مداخلت بند ہو جائیگی لیکن یہ ہمیشہ سراب ہی ثابت ہوا ہے کیا اس عوامی ٹرینڈ کے بعد،سراب سے حقیقت تک کا سفر کامیاب ہو سکے گا؟؟؟