ریلوے درست سمت کی طرف گامزن
تحریر : سید اعجاز الحسن
ملکی معیشت میں پاکستان ریلوے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے عوام کی سہولیات میں صف اول کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان ریلوے نے موجودہ حکومت کے ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لا کر اسے منافع بخش ادارے میں تبدیل کرنے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے لیے کسی بھی ملک میں اداروں کا مستحکم اور میرٹ پر کام کرنا ہی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ اداروں اور معاشرے میں مثبت تبدیلی مستقل بنیادوں پر مسلسل جدوجہد سے ہی آتی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا ماڈل پوری دنیا میں کامیاب ہے، اس لیے پاکستان ریلوے بھی اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرینوں میں نجی شعبہ کی شراکت داری سے نہ صرف مسافروں کیلئے سہولیات میں اضافہ کا رجحان بڑھتا ہے بلکہ ریلوے آمدن کو بھی استحکام حاصل ہوتا ہے۔ سی ای او ریلوے عامر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پرائیویٹ آپریٹرز کو ٹرین چلانے کیلئے ریلوے کے طے کردہ اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ تمام دستیاب وسائل زیرِ استعمال لا کر مسافروں اور تاجر برادری کی توقعات پہ پورا اترنے کی بھرپور کوششیں کی جاری ہیں۔
مالی سال 25۔2024ء میں ایم ایل ون منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں کراچی سے حیدرآباد کے درمیان کام کا آغاز مارچ 2025ء تک متوقع ہے جس کے لیے چیئرمین ریلویز سید مظہر علی شاہ نے دو ماہ قبل کراچی سے حیدرآباد تک ٹریک کی ونڈو ٹریلنگ انسپیکشن کر کے آپریشنل معاملات کا جائزہ لیا۔ ایم ایل ون منصوبہ ریلوے کی لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے جسے امید ہے کہ ہر ممکن میں مکمل کیا جائے گا۔ اسی طرح ایم ایل ٹو پر پی ایس ڈی پی کے بھی دو پراجیکٹ منظور کئے جا چکے ہیں جن پر کام شروع کر کے ٹریک کو بہتر کیا جائے گا اور ایم ایل ٹو پر مزید ٹرینیں چلنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔
پاکستان ریلویز ریجنل کنیکٹیوٹی کے منصوبوں کو ترجیح دیرہا ہے جس کے تحت کوہاٹ۔ تھل۔ پاراچنار۔ خرلاچی منصوبے پر پیشرفت جاری ہے اور کنسلٹنٹ فرم فنانشل ماڈل اور پلان آف ایکشن تیار کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ تھرکول کو ریلوے سسٹم کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2025ء سے آپریشنل ہو جائے گا۔ ریلوے سالانہ 10ملین ٹن کوئلہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے ملک بھر کے پاور پراجیکٹس کو سستا ایندھن فراہم کیا جا سکے گا۔
بہائو الدین زکریا ایکسپریس، تیزگام اور خیبر میل میں پریمیم لائونج ڈائننگ کاریں لگائی گئی ہیں اس کے علاوہ علامہ اقبال ایکسپریس میں بھی جلد نئی ڈائننگ کار لگا دی جائے گی۔ نئی ڈائننگ کاروں کے اضافے سے مسافروں کو معیاری فوڈ دستیاب ہو رہا ہے جس سے مسافروں کا ریلوے پر اعتماد بڑھا ہے۔ آہستہ آہستہ ساری ٹرینیں رابطہ ایپلیکیشن پر منتقل کی جا رہی ہیں۔اس وقت پاکستان ریلوے کے سسٹم پر 98پسنجر ٹرینیں چل رہی ہیں۔ دنیا آٹومیشن پر جا رہی ہے، ہمیں بھی بہترین طریقوں کو اپنانا ہو گا۔ سیپ سسٹم سے ریلوے میں بہتری آرہی ہے اسے مکمل طور پر فعال کیا جارہاہے۔تمام بڑی ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کی سہولیات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اسٹیشنوں پر بیٹھنے کے لیے بینچز کی تعداد میں اضافہ، پانی کی فراہمی، اسٹیشنوں پر پرانے بیت الخلاء کے ساتھ ساتھ جدید ایئر کنڈیشنڈ بیت الخلاء تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشنوں پر کھانی پینے کی اشیاء کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ مسافروں کو معیاری اشیاء دستیاب ہو سکیں۔صفائی ستھرائی کے انتظام میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ٹرینوں کی پنکچوئلٹی کو مانیٹر کیا جا رہا ہے جس کی نگرانی خود سی ای او پاکستان ریلویز کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان ریلویز نے تمام مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں 3اگست 2024ء سے عوام کو سفری ریلیف فراہم کرتے ہوئے تمام کلاسز میں کمی کی جس کے مطابق اے سے کلاسز کی ٹکٹ میں سو سے ڈیڑھ سو روپے تک جبکہ اکانومی کلاس کے ٹکٹ میں 50روپے تک کمی کی۔
کراچی۔ راولپنڈی۔ کراچی کے درمیان یکم ستمبر سے سر سید ایکسپریس چلا دی گئی۔ ٹرین پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلائی گئی۔ پاکستان ریلوے بہت جلد مزید جدید کوچز ریلوے سسٹم میں شامل کرے گا کیونکہ چائنہ سے درآمد کی گئی کوچز ریلویز کی فیکٹریوں میں تیار کی جا رہی ہیں۔ چائنہ سے ٹیکنالوجی بھی پاکستان منتقل ہو چکی ہی۔ ریلوے بہت جلد دو سے تین اپگریڈڈ ٹرینیں چلانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ایک گرین لائن طرز کی ٹرین بھی چلانے کا اعلان کر چکی ہے جو کہ کم سٹاپجز پر مشتمل ہوگی۔
ریلوے میں آئل کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ڈپوز کو کمپیوٹرائز کر دیا گیا ہے۔ اب تمام سسٹم پر ٹرینوں کو فیول کی ترسیل کے حوالے سے جدید میکنزم کے تحت تیل فراہم کیا جاتا ہے جس کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے۔ آئل ریکارڈ کمپیوٹرائز ہونے سے تیل کی چوری چکاری میں واضح کمی آئی ہے اور آئل بھی وافر مقدار میں ڈپوز میں موجود رہتا ہے۔ریلوے نے مالی سال 24۔2023ء میں ریکارڈ 88ارب روپے آمدن حاصل کی جسے ریلوے تاریخ کی سب سے زیادہ آمدن تصور کیا جا رہا ہے۔ اب جبکہ ریلوے کو مالی سال 25۔2024ء حکومت کی طرف سے ایک کھرب نو ارب روپے کا ٹارگٹ ملا ہے جسے پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے حاصل کرنے کے لیے دن رات کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔
جس کی بدولت ابتدائی پانچ ماہ میں مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں سے ریلوے نے 33ارب روپے کمائے ہیں جب کہ پچھلے مالی سال میں اسی دورانیہ میں 29ارب روپے کی آمدن حاصل کی گئی تھی۔ پچھلے مالی سال 8ملین ٹن سامان کی ترسیل ریلوے کے ذریعے کی گئی جو کہ تجارتی کمیونٹی کا ریلوے پر اعتماد کا اظہار ہے۔ پاکستان ریلوے کے افسران اور ملازمین دن رات محنت کر کے پاکستان ریلوے کی آمدن کو بلندیوں پر لے کر جا رہے ہیں جو کہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔پاکستان ریلوے ریونیو بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
پاکستان ریلوے میں انتظامی اور آپریشنل شعبوں میں بہتری کا عمل جاری ہے۔ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے ذریعے موجودہ انفراسٹرکچر، رولنگ اسٹاک، فیکٹریوں اور ریلوے اسٹیشنوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان ریلوے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان ریلویز نے چینی اور پاکستانی دو کمپنیوں کے ساتھ آپٹیکل فائبر کیبل بچھانے کے معاہدوں پر دستخط کئے۔ پاکستان ریلویز کمپنیوں کو آپٹیکل فائبر کیبل بچھانے کیلئے راستہ فراہم کرے گا۔ چینی کمپنی ایم ایل ون پر کیماڑی سے پشاور کینٹ تک کیبل بچھا سکے گی جبکہ پاکستانی کمپنی کیماڑی سے لودھراں تک کا رائٹ آف وے استعمال کرنے کی مجاز ہو گی۔ یہ معاہدے تین سال کی مدت کیلیے کیے گئے ہیں جس میں توسیع بھی کی جا سکے گی۔ آپٹیکل فائبر کیبل معاہدے کا ہونا ریلوے کی ریونیو سٹریم بڑھانے کی جانب اہم قدم ہے۔ قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کا پاکستان ریلویز کے ساتھ اشتراک خوش آئند ہے۔
پاکستان ریلوے کی پشاور ڈویژن کے تاریخی ریلوے سٹیشن لنڈی کوتل کی تزئین و آرائش کے بعد ریلوے میوزیم قائم کر دیا گیا ہے جبکہ تاریخی ریلوے سٹیشن اور میوزیم کو عوام الناس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ پاکستان ریلویز اپنی زمینوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں قبضہ مافیا کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مختلف ڈویژنوں میں آپریشن کر کے ریلوے کی قیمتی زمینوں کو واگزار کروا کر ریلوے سسٹم میں داخل کر رہا ہے۔
سید اعجاز الحسن